گول میز کانفرنس میں ملک کے صف اول کے آئینی و قانونی ماہرین شریک ہیں۔ سول سوسائٹی اورسیاسی جماعتوں کے مندوبین اور نامور صحافیوں کو بھی گول میز کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے۔ کانفرنس میں شرکت کیلئے سابق جج صاحبان اور بار کے عہدے داروں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔
لطیف کھوسہ کی قیادت میں اعتزازاحسن اور خواجہ طارق رحیم اہم ترین گول میزکانفرنس کی میزبانی کرہے ہیں۔
گول میزکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نے سنئیر وکلاء اور جج صاحبان کو کانفرنس میں شرکت پر خوش آمدید کہا۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملک میں اداروں کے درمیان تصادم کی صورتحال ہے۔ اس موقع پر ایسی ہوش مند لوگوں کے بات کی ضرورت ہے جو مسائل کا حل بتائے۔ قوم اور نوجوانوں کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔اللہ نے پاکستان کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ اس کے باوجود ملک کا جو حال ہے یہ جناح اور اقبال کا پاکستان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ ہماری فالٹ لائین کہاں پر ہے؟ آج کے دن ہم لاہور سے بات شروع کرنے کا آغاز کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک اچھی شروعات کرنے جا رہے ہیں۔ ایسا پاکستان جس میں آئین کی بالادستی ہو اور عدلیہ کی آزادی ہو۔
نامور وکیل اور سیاستدان اعتزاز احسن نے کہا کہ عرصہ سے کہہ رہا ہوں ہمارے ادارے عدلیہ میں دراڑ پڑ گئی ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بینچ کی تشکیل دیکھ کر فیصلے کا پتہ چل جاتا ہے۔ الف گروپ کے بینچ کو دیکھ کا پتہ چل جاتا ہے فیصلہ کیا ہوگا۔ اسی طرح ب بینچ کو دیکھ فیصلے کا پتہ چل جاتا ہے۔
اس وقت اختیارات کی تاریخی جنگ جاری ہے۔ ہمارے بڑے بڑے ادارے دست و گریباں ہیں۔ عدالتی اور انتظامی معاملات میں مداخلت ہو رہی ہے۔ یہ دراڑیں پاکستان کے ماتھے پر بزرگی کی لکیریں ہیں
اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں دراڑ پڑ چکی ہے اور یہ دراڑ اس حد تک پڑ چکی ہے کہ مل کر کام کرنا ممکن نہیں رہا۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ عدلیہ آئین کی تشریح کرتی ہے تو پارلیمنٹ ترمیم لے آتی ہے، پارلیمنٹ ترمیم کرتی ہے تو عدلیہ اس کی تشریح کرنا شروع کردیتی ہے۔
پنجاب اور کے پی میں الیکشن سے متعلق اعتزاز احسن نے کہا کہ آئین کہتا ہے 90 دن کے اندر الیکشن کروائے جائیں جو آئین کا تقاضا ہے۔ایک آئینی مسئلے کو الجھا دیا گیا ہے۔ چار ججز اظہر من اللہ منصور علی شاہ مندوخیل اپنی حتمی رائے دے چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل ہونا چاہیے۔ جو عدلیہ کے فیصلے پر عمل نہیں کرے گا وہ نااہل ہوگا۔
اس موقع پر سابق جسٹس شبر رضا رضوی کا کہنا تھا کہ آئین میں انتخابات کروانے کیلئے اخراجات کا طریقہ کار وضاحت سے موجود ہے۔ اگر 14 مئی تک انتخابات نہیں کروائے جاتے تو یہ آئین شکنی ہو گی۔ صرف 245 کی خلاف ورزی آئین شکنی نہیں کسی بھی آئین کی شق پر عمل نہ کرنا آئین شکنی ہے۔ صورتحال 1971 جیسی ہے اب کیا توڑنا چاہتے ہیں۔ قوم کی معاشی صورتحال بدترین ہو چکی ہے۔ ان تمام مسائل کا حل بہت سادہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 224 پر عمل کرنا ضروری ہے۔
سابق جسٹس شبر رضا نے مزید کہا کہ آرمی چیف کا پارلیمنٹ کو خطاب خوش آئند ہے۔ ریاست اپنے اختیارات منتخب لوگوں کے ذریعے سے استعمال کرے گی۔ یہ ہمارے آئین میں درج ہے۔ ہماری عدالتوں نے پارلیمانی طرز حکومت کے حق میں متعدد فیصلے دئیے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں وزیراعظم وفاق اور صوبے میں وزیراعلی کے افسسز اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ آئین میں اسمبلیوں کی مدت اور اسکے جلد تحلیل کے بارے میں واضح طور پر لکھا ہے۔ آئین میں لکھا ہے کہ اگر اسمبلی اپنی مدت مکمل کرنے سے پہلے تحلیل ہو جائے تو 90 روز مین انتخاب ضروری ہیں۔
آئین کا تقدس اور عدلیہ کی آزادی سے متعلق سیمنار سے سابق اٹارنی جنرل انور منصور خطاب کر رہے ہیں۔
سابق اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا کہ آئین کا دیباچہ میں واضح لکھا ہے کہ ریاست منتخب نمائندوں سے چلتی ہے۔ اسکے ساتھ لکھا ہے کہ ہم نے ہر صورت آئین کے مطابق چلنا ہے۔ سپریم کورٹ ایسا ادارہ ہے جس پر ہم سب کا اعتماد تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو متنازع بنانے کی کوشیش کی جا رہی ہیں۔
سابق آٹارنی جنرل نے کہاکہ حال ہی میں یہ بیان آیا کہ صرف پارلیمنٹ ہی سب کچھ ہے۔ اس متنازع صورتحال کو ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے خاتمے کیلئے سپریم کورٹ میں اتحاد کی فضا بنانا نہایت ضروری ہے۔ اتحاد بنانے کیلئے سنئیر وکلاء اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
حامد خان ایڈووکیٹ نے کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بحران سے نکل جائیں گے لیکن چند بنیادی اصولوں پر کھڑے رہنا ہوگا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہر کوئی مرضی کے مطابق آئین کی تشریح کر رہا ہے۔ بعض لوگ کہہ رہے ہیں آئین کے مطابق پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہوں یہ آئین کی غلط تشریح ہے۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہوں گے۔عدلیہ سمیت تمام اداروں کو فرض ہے کہ آئین کا احترام کریں۔
حامد خان نے مزید کہا کہ اگر قانون میں لکھا گیا ہے کہ 90 دن میں الیکشن ہونے ہیں تو آپ کسی بہانے کے ذریعے اس سے باہر نہیں جا سکتے۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کریے تمام ادارے اس پر عمل کے پابند ہیں۔ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہیں مانتے یہ واضع طور پر آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ہم سب سے پہلے وکیل ہیں اس کے بعد ہم کسی سیاسی پارٹی کے ممبر ہیں۔ بطور وکیل ہماری سب سے بڑی ذمہ داری آئین کی بالادستی ہے۔ جو وکیل آئین کی عملداری کے خلاف بات کرتا ہے وہ آئین کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔ مشرف کو وردی میں الیکشن لڑنے کی اجازت ٹیکنیکل بنیادوں پر دی گئی جو بد قسمتی تھی۔ پورا ملک سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہا ہے آپ کہتے ہیں سوموٹو نہ ہو۔ امید ہے سپریم کورٹ کے اندر اگر کوئی اختلافات ہیں تو وہ دور ہوں۔مختلف پٹیسنز دائر نہ کی جائیں اس سے خلیج بڑھے گی۔وکلا ان اختلافات میں ہرگز جلتی پر تیل کا کام نہ کریں۔