مقالہ نگار کے نام سے لاعلمی کے باوجود یہ مقالہ نہایت اہم، قابل قدر اور دلچسپ ہے۔ اردو زبان کی شروعات، خاندان، پھیلاؤ، اٹھان، مقبولیت اور دیگر متعلقہ موضوعات پر جتنی تحقیق اس مقالے میں پیش کی گئی ہے وہ قابل ستائش ہے۔
اسی مقالے میں سے بعض اقتباسات یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔
**انسان کا شاید سب سے بڑا تخلیقی کارنامہ زبان ہے۔ ہم دراصل زبان کے ذریعے اپنی ہستی کا اور ان رشتوں کا اقرار کرتے ہیں جو انسان نے کائنات اور دوسرے انسانوں سے قائم کر رکھے ہیں۔ انسان کی ترقی کا راز بھی بہت کچھ زبان میں پوشیدہ ہے کیونکہ علم کی قوت کا سہارا زبان ہی ہے۔
** اردو زبان کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہندی، فارسی اور عربی کی تمام آوازیں موجود ہیں۔ اردو کے حروفِ ہجا ان تینوں زبانوں کے حروفِ ہجا سے مل کر بنے ہیں۔ تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اس زبان میں دوسری زبانوں کے لفظوں اور محاوروں کو اپنانے کی بڑی صلاحیت ہے۔ چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ اردو کا رسم الخط ابتدا سے فارسی ہے۔
** اردو زبان کو انیسویں صدی کی ابتدا تک ہندی، ہندوی، دہلوی، ریختہ، ہندوستانی، دکنی اور گجراتی غرض مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔
** ڈاکٹر گلکرسٹ نے جب ملک کی سب سے مقبول زبان جو شمالی ہند کے علاوہ دکن حتیٰ کہ مدراس اور بنگال میں بولی اور سمجھی جاتی تھی، انگریزوں کو سکھانے کا ارادہ کیا تو اس زبان کو 1787 میں 'ہندوستانی' کا نام دیا۔
** اردو ترکی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی لشکر، سپاہی، کیمپ، خیمہ وغیرہ کے ہیں۔ عہدِ مغلیہ میں یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ زبان کے معنی میں اس لفظ کا استعمال چنداں قدیم نہیں۔ میر امن دہلوی، سرسید احمد خان اور سید احمد دہلوی (مؤلف فرہنگِ آصفیہ) کا یہ دعویٰ کہ اردو زبان کی ابتدا شاہجہانی لشکر ( اردو) سے ہوئی اس لیے اس زبان کا نام بھی اردو پڑ گیا، درست نہیں ہے۔ کیونکہ اٹھارویں صدی عیسوی سے پیش تر کا کوئی شاعر، ادیب اور تذکرہ نگار اس زبان کو ' اردو' سے تعبیر نہیں کرتا۔
**علمائے لسانیات نے زبانوں کو ان کی صَوتی اور صرفی خصوصیات کی بنیاد پر مختلف خاندانوں میں تقسیم کیا ہے۔ سب سے بڑا خاندان آریائی زبانوں کا ہے۔ اس کے بعد منگول خاندان (چینی، جاپانی وغیرہ) کا نمبر آتا ہے۔ اور پھر سامی (عربی اور عبرانی وغیرہ) اور دراوڑی (تیلگو، تمل، ملیالم، کنڑی) زبانوں کے خاندان ہیں۔
آریائی خاندان جو بنگال سے ناروے تک پھیلا ہوا ہے، کئی گھرانوں میں بٹ گیا ہے۔
**ہندی کا علاقہ بہت وسیع تھا۔ یہ زبان ملتان سے پٹنہ تک بولی اور سمجھی جاتی تھی اور اس کی بہت سی مقامی بولیاں تھیں مثلاً برج بھاشا، کھڑی بولی، اودھی، بھوجپوری، قنوجی، ہریانی وغیرہ۔ اور یہ زبان راجستھانی اور پنجابی سے بہت قریب تھی۔ مماثلت اور ہمسائیگی کے باعث ہم ہندی (مغربی اور مشرقی)، پنجابی، راجستھانی اور سندھی وغیرہ کو آپس میں بہنیں کہہ سکتے ہیں۔
**مولانا سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب 'عرب اور ہند کے تعلقات' میں اُن ہندی الفاظ کی طویل فہرست دی ہے جو قدیم عربی لغت میں تجارتی چیزوں کے لیے پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ صندل (چندن)، کافور (کپور)، اطریفل (تری پھل)، نیلوفر (نیلو پھل) وغیرہ ہندئ الاصل الفاظ ہیں۔ قرآن شریف میں بھی ہندی کے تین الفاظ کی نشاندہی انہوں نے کی ہے؛ مسک (موشکا)، کافور (کپور) اور زنجبیل (زنجابیر)۔
**ہم اس جھگڑے میں نہیں پڑنا چاہتے کہ اردو زبان کا بیج کہاں بویا گیا اور اس کے انکھوے کہاں پھوٹے۔ البتہ یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ زبان کی علاقائی تقسیم جو آج ہے وہ 800، 900 سال پیش تر نہ تھی۔ اُس وقت تک اکثر دیسی زبانوں نے کوئی واضح شکل بھی اختیار نہیں کی تھی۔
قدیم مورخین نے اول تو زبان کے مسائل سے بحث ہی نہیں کی ہے اور اگر اشارۃً ذکر کیا ہے تو بڑے مبہم انداز میں۔
**حافظ محمود شیرانی صاحب نے ہمیں اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دیا کہ اگر اردو پنجاب میں پیدا ہوئی تو پھر وہ یہاں کے باشندوں کی مادری زبان کیوں نہیں بنی؟ یہاں کے عام لوگوں کی بولی پنجابی کیوں ہو گئی؟ حالانکہ یہ سارا علاقہ محمود غزنوی کے حملے سے اٹھارویں صدی عیسوی یعنی 800 برس تک مسلمانوں کے تسلط میں رہا۔ یہ خطہ اسلامی تہذیب کا نہایت اہم مرکز بھی تھا اور یہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت بھی آباد تھی۔ پھر اردو یہاں بول چال کی زبان کیوں نہ بنی جس طرح وہ گنگا جمنا کے دو آبے کی زبان بن گئی۔
**مختصر یہ کہ اردو کی ابتدا کے بارے میں ہم یقین سے فقط یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب مغربی ہندی میں فارسی کا پیوند لگا تو یہ زبان وجود میں آئی۔ مغربی ہندی سے مراد وہ زبان ہے جو دہلی اور میرٹھ کے علاقے میں بولی جاتی تھی۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ غزنوی عہد میں لاہور اور ملتان وغیرہ میں بھی یہی زبان رائج تھی تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اردو کی داغ بیل اسی خطے میں پڑی۔
**تیرھویں، چودھویں اور پندرھویں صدی کا زمانہ اردو زبان کی تشکیل کا دَور ہے۔ اس دَور میں بقول مولوی عبدالحق اردو کٹھالی میں پڑی گل رہی تھی، ہنوز سونا نہیں بنی تھی۔ اس دَور میں امراء اور عمائدینِ سلطنت نے اردو کو منہ نہیں لگایا۔ ممکن ہے کہ یہ لوگ گھروں میں یہی زبان بولتے ہوں مگر ان کی تحریر اور تصنیف کی زبان مدت تک فارسی ہی رہی۔ یہی زمانہ تصوف اور بھگتی کے عروج کا بھی ہے۔ اسی دور کی اردو کی خصوصیات میں ہندی الفاظ کی بہتات تھی، عربی اور فارسی کے الفاظ خال خال پائے جاتے تھے۔ فارسی اور عربی کی مذہبی اور صوفیانہ اصطلاحیں استعمال کی جاتی تھیں مگر شعراء ہندی اور سنسکرت کے ٹھیٹ الفاظ اور عارفانہ اصطلاحیں بھی بڑی بے تکلفی سے لکھ جاتے تھے۔ شاعرانہ بحریں اور اصنافِ سخن سب ہندی کے تھے۔
**اسی دَور کی ایک غزل بھی امیر خسرو کے نام سے مشہور ہے جس کا پہلا مصرع فارسی میں ہے اور دوسرا اردو میں؛
زحالِ مسکین مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو گاہے لگاہے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز از زلف و روزِ وصلش چوعمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
** اردو زبان اور ادب نے 300 سال تک جتنی ترقی دکن میں کی، اس کی نظیر پورے ملک میں نہیں ملتی۔ اسی لیے دکن کے لوگ اگر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پُرکھوں نے اردو کو نکھارا، بنایا، سنوارا اور اس میں ادبی شان پیدا کی تو یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں ہے۔
قطب شاہی ( گولکنڈہ: 1518 تا 1687) اور عادل شاہی ( بیجاپور: 1489 تا 1686) دَور میں اردو کو دکن میں بہت فروغ ہوا اور وہ ملک کی سب سے مقبول زبان بن گئی۔
**جب دکن کی ریاستوں کو زوال آیا اور سلطنت مغلیہ کے دَورِ عروج میں اورنگ زیب نے 1686 میں بیجاپور اور 1687 میں گولکنڈہ فتح کیا تو اورنگ آباد کی رونق بڑھ گئی۔ اردو کا اورنگ آبادی دَور دراصل ایک درمیانی کڑی ہے جو دکن کو شمالی ہندوستان سے ملاتی ہے۔ اورنگ آباد کے لوگوں کی زبان میں بھی یہ رنگ جھلکتا ہے جو دکنی تہذیب سے بھی متاثر ہے اور اردوئے معلیٰ سے بھی مماثلت رکھتی ہے۔
** اردو زبان کی تاریخ میں شاہجہاں کا عہد بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اٹھارویں صدی کے تذکرہ نویسوں نے یہاں کی زبان کو ' اردوئے معلیٰ شاہجہان آباد دہلی' کا لقب دیا ہے۔
**ہمارے بعض محققین، ناسخ اور دوسرے مصلحین زبان کا ذکر یوں کرتے ہیں گویا وہ ادیب نہیں بلکہ بادشاہِ وقت یا ہائیکورٹ کے جج تھے کہ اِدھر اُن کا حکم ہوا اور اُدھر لوگوں نے اپنی زبان میں اصلاح کر لی۔ یہ طرزِ فکر غیر تاریخی ہے۔ کیونکہ زبان کی دنیا میں کُن فیکون کا قانون نہیں چلتا اور نہ کسی بادشاہ کا فرمان کام آتا ہے۔ یہاں اگر کسی کا حکم چلتا ہے تو وہ عام لوگ ہیں جو نہ کسی کے کہنے سے زبان بولتے ہیں اور نہ کسی کے کہنے سے اُسے ترک کرتے ہیں۔ ترک و قبول ایک مسلسل اور تدریجی عمل ہے جو زبان کی دنیا میں ہر وقت جاری رہتا ہے۔ الفاظ اور محاورے جب اپنی افادیت کھو دیتے ہیں تو لوگ انہیں کھوٹے سکے کی مانند ترک کر دیتے ہیں اور نئے الفاظ و محاورات کو جو اظہار و ابلاغ میں ان کی مدد کریں، قبول کر لیتے ہیں۔
اصلاحِ زبان کے سلسلے میں آرزو یا حاتم یا ناسخ کی اہمیت یہ نہیں ہے کہ انہوں نے ایک دن بیٹھے بیٹھے یہ فیصلہ کیا کہ کل سے فلاں ترکیبیں، الفاظ اور محاورات ترک کر دیے جائیں گے اور لوگوں نے ہنسی خوشی ان کی بات مان لی یا انہوں نے کہا؛ فلاں الفاظ کل سے رائج ہو جانے چاہئیں اور وہ پورے ملک میں رائج ہو گئے۔ اس کے برعکس ان مصلحین کی عظمت کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے یہ معلوم کیا کہ ملک کے شائستہ لوگوں نے کن الفاظ و محاورات کا استعمال ترک کر دیا ہے اور کون کون سے نئے الفاظ و محاورات زبان میں داخل ہو گئے ہیں۔
**الفاظ بڑے سخت جان ہوتے ہیں۔ ان کو مرنے کے لئے ایک جگ چاہئیے۔ اسی طرح نئے محاورات اور کلمات بھی آہستہ آہستہ رواج پاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں غالب کے عہد میں بھی آوے، جاوے، آئے ہے، جائے ہے، شنیدن، غلطیدن وغیرہ کا استعمال ملتا ہے۔
** اردو زبان کی ترویج و ترقی میں چھاپے خانوں اور اخباروں، رسالوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ اردو کے چھاپے خانے پہلے پہل کلکتہ میں قائم ہوئے۔ اس کے بعد ایک پریس 1831 میں کانپور میں اور دوسرا لکھنؤ میں 1837 میں کھلا۔ رفتہ رفتہ دہلی، بمبئی، حیدرآباد دکن اور لاہور غرض ملک کے سب بڑے شہروں میں چھاپے خانے کھل گئے اور اردو کی کتابیں کثرت سے شائع ہونے لگیں۔ اہل وطن نے انگریزوں سے صحافت کا فن بھی سیکھا۔ چنانچہ دہلی، کلکتہ، لکھنؤ اور لاہور وغیرہ سے اخبارات جاری ہوئے۔ اخباروں کی وجہ سے زبان میں ایک طرح کی یکسانیت اور ہم آہنگی آ گئی اور مقامی بولیوں کا فرق کم ہو گیا۔
**گذشتہ ایک صدی میں مغرب سے ربط ضبط کے باعث ہمارے ملک میں بڑی بڑی انقلابی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ مغربی معیشت اور معاشرت کا اثر فقط ہماری اقتصادی، صنعتی اور سیاسی زندگی ہی پر نہیں پڑا بلکہ اس کی وجہ سے ہمارے رہن سہن، خوراک، پوشاک اور وضع قطع میں بھی مغربی رنگ جھلکنے لگا ہے۔ ہماری تہذیبی، جمالیاتی اور اخلاقی قدریں بھی مغربی ہوتی جاتی ہیں حتیٰ کہ ہمارے سوچنے، محسوس کرنے اور بولنے کے انداز پر بھی مغرب کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ زبان جو کہ تہذیب کا عطر و علامت ہے، بہت متاثر ہوئی ہے۔
اردو لغت میں سینکڑوں ہزاروں الفاظ و اصطلاحات مغربی زبانوں کے داخل ہوئے ہیں۔ ہمارا پیرایہ بیان انگریزی ہوتا جاتا ہے اور ان گنت انگریزی ترکیبیں ترجمے کی شکل میں غیرارادی طور پر اردو میں رائج ہو رہی ہیں۔ بعض انگریزی داں لوگ تو بولتے اور لکھتے وقت سوچتے انگریزی میں ہیں اور پھر اس کا ترجمہ اردو میں کرتے ہیں۔
اور چونکہ مغرب میں آئے دن نئے نئے تجربے ہو رہے ہیں، علوم و فنون کی نئی نئی شاخیں پھوٹ رہی ہیں، نئی نئی صنعتیں قائم ہو رہی ہیں، نئی نئی مشینیں ایجاد ہو رہی ہیں، نئے نئے پھل، پھول اور پودے اگائے جا رہے ہیں، نئے نئے کام نکل رہے ہیں اور نئی نئی چیزیں پیدا ہو رہی ہیں اس لیے ان کے نام بھی لامحالہ مغربی ہیں۔ یہ چیزیں ہمارے ملک میں بھی استعمال ہوتی ہیں لہٰذا ان کے مغربی نام بھی اردو زبان میں داخل ہوتے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اردو لغت میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔