مغرب کا خیال آتے ہی دلشاد کی راکھ میں ایک ننھا سا چراغ ٹمٹما اٹھتا۔
مغرب میں کعبہ ہے۔ کعبہ الله میاں کا اپنا گھر ہے۔ لیکن کیمپ کی دوسری عورتیں کہتی تھیں مغرب میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ وہاں ہمارے بھائی ہیں، ہماری بہنیں ہیں، ہمارے ماں باپ ہیں۔ وہاں عزت ہے۔ وہاں آرام ہے۔۔۔۔ دلشاد سوچتی تھی کہ شاید وہاں رحیم خان بھی ہو! یہ خیال آتے ہی اس کے جسم کا رواں رواں مچل اٹھتا اور وہ بےچین ہو جاتی کہ پر لگا کر اڑ جائے اور اپنے تھکے ہوئے، دکھے ہوئے جسم پر اس ارض مقدس کی خاک مل لے۔
ہفتہ، دو ہفتے، مہینہ، دو مہینے۔۔۔ دن گزرتے ہے۔ راتیں بیتتی گئیں اور مغرب کا خوش آئند تصور دلشاد کے سینے میں امیدوں کا نور پھیلاتا رہا۔ انبالہ کیمپ کی آبادی بڑھتی گئی اور جب میجر پریتم سنگھ اور اس کے جوانوں کا دل اچھی طرح سیر ہو گیا تو ایک دن وہ ریل بھی آ گئی جس کے انتظار میں امیدوں کے چراغ ابھی تک جل رہے تھے۔ جب وہ ریل کے ڈبے میں سوار ہوئی تو دلشاد کو ملا علی بخش کی یاد آئی۔ وہ بھی اسی طرح ریل میں بیٹھ کر حج کو روانہ ہوا تھا، گلے میں ہار تھے، کپڑوں پر عطر تھا اور گاؤں کے لوگ باجا بجاتے ہوئے اس کے ساتھ سٹیشن تک آئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
لدھیانہ، پھلور، جالندھر ۔۔۔ امرتسر ۔۔۔ ہر منزل پر عورتوں کی زندگی کے بند کھلتے گئے۔ ان کی خاک میں سوئے ہوئے نغمے بیدار ہونے لگے۔ وہ گنگنانے لگیں۔ وہ مسکرانے لگیں۔ وہ آنکھیں مل مل کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔ جیسے کسی بھیانک خواب کو بھلانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ کسی نے بالوں میں کنگھی کی۔ کسی نے دوپٹے کے ساتھ دانتوں کی میل اتاری۔ کوئی کپڑے جھاڑنے لگی۔ کوئی بچوں کو لوریاں سنانے لگی۔ کچھ عورتوں نے سر سے سر جوڑ کر گیت گائے۔ پیارے پیارے، رس بھرے، دلربا گیت، کہ 'اے کالی کملی والے میں تیری یثرب نگری میں آئی ہوں' ۔۔۔ ' مجھے اپنی کملی میں چھپا لے۔ مجھے اپنے پاؤں کی خاک بنا لے۔۔'
جب گاڑی امرتسر کے سٹیشن سے نکلی تو کسی نے کہا اب صرف ڈیڑھ گھنٹے کا سفر اور ہے۔ بس ڈیڑھ گھنٹہ اور! ساتھ اور تیس، نوے منٹ! یہ ناقابل یقین خیال عورتوں کے تن بدن پر شراب کے تیز و تند نشے کی طرح چھا گیا۔ اپنی منزل کو اتنا قریب پا کر وہ شدت احساس سے مفلوج سی ہو گئیں۔ پچھلے بھیانک مہینوں کی یاد زہر بن کر ان کے سینے میں عود آئی۔ ماضی کی ہولناک حقیقت مستقبل کے سہانے ارمانوں پر غالب آ گئی۔
یکایک ان کو اپنے شاداب گاؤں یاد آنے لگے۔ اپنے جوان جوان بھائی، اپنے نحیف نحیف ماں باپ، جن کے بے گور و کفن لاشے گلیوں میں پڑے سڑ رہے تھے۔ اپنی اداس اداس بہنیں جو کیمپوں میں بیٹھی فرشتوں کا انتظار کر رہی تھیں کہ وہ انہیں اپنے نوری پروں میں چھپا کر لے جائیں۔ دور، کہیں بہت دور، مغرب کی طرف۔۔۔۔۔ وہ رونے لگیں۔ ان کے گالوں پر آنسوؤں کے پرنالے بہنے لگے۔
دلشاد بھی رو رہی تھی، بلک بلک کر، سسک سسک کر، اور آنسوؤں کا نمکین پانی اس کے ہونٹوں پر پہاڑی چشموں کی طرح ابل رہا تھا۔ وہ روتی گئی، وہ روتی گئی اور اشکوں کی دبیز چادر نے اس کی پلکوں کو اپنے دامن میں چھپا لیا۔ ایک عجیب سی غنودگی، ایک عجیب سا خمار اس کے روئیں روئیں پر چھا گیا۔ اسے یوں محسوس ہونے لگا کہ وہ سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطے کھا رہی ہے اور بےشمار سنپولیے اس کے تن بدن پر رینگ رہے ہیں۔۔ رینگ رہے ہیں!!
یہ قدرت اللہ شہاب کے ناولٹ ' یا خدا' سے ایک اقتباس ہے۔ اس سے پہلے اور بعد میں دلشاد اور دلشاد جیسی کئی عورتوں پر کیا گزری، اس کے لئے ناولٹ پڑھنا ضروری ہے۔ بس ایک اہم بات جو کہنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ ریل میں بیٹھی ان عورتوں نے بہت بھیانک روز و شب دیکھ کر یہ آزادی حاصل کی ہے۔ ان ماؤں اور ان کی قربانیوں کی قدر کریں، اور ان کی مرہون منت ملنے والی آزادی کی بھی۔