ایک میونسپل کارپوریشن کا ٹرک جا رہا ہے۔ جس میں ٹھیلے، ریڑھیاں اور خوانچے لدھے ہوئے ہیں جو ناجائز تجاوزات کے زمرے میں اٹھائے گئے ہیں۔ درحقیقت اس ٹرک میں کسی خاندان کی دو وقت کی روٹی بچوں کے اسکول کی فیسیں، مکان کا کرایہ اور بجلی کا ادا کیا جانے والا بل بھی ہے جو ادا نہ ہوگا۔ ناجائز تجاوزات نادار لوگوں پر گرنے والا تازیانہ ہے۔ دولت مند لوگوں کے پلازے اور بڑی دکانیں ان کی زد سے محفوظ ہیں۔ اخلاقی حدود وقیود سے تجاوز کرنے والے الگ ہیں۔
یہ ایک تصویر ہے۔
پولیس تشدد سے ہلاک ہونے والے کے لواحقین اپنے کسی پیارے کی لاش سٹرک کے بیچوں بیچ رکھ کر نوحہ کناں ہیں۔
دوسری تصویر۔
اپنی کم سن بچی کے اغوا کے لیے آہ و بکا کرنے والے اہل خانہ ۔ تیسری تصویر۔۔۔ اور سیاسی و سماجی احتجاج فٹ پاتھوں پہ بیٹھے ہوئے بینر لگائے ہوئے خاندان انصاف کی تلاش میں سرگرداں۔
شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے
پا شکستہ سربریدہ خواب
جن سے شہر والے بے خبر
گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روزوشب
کہ ان کو جمع کر لوں
دل کی بھٹی میں تپائوں
جس سے چھٹ جائے پرانا میل
ان کے دست و پا پھر سے اُبھر آئیں
چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن
جیسے نو آراستہ دولہوں کے دل کی حسرتیں
پھر سے ان خوابوں کو سمتِ رہ ملے
رات ہو جاتی ہے
خوابوں کے پلندے سر پر رکھ کر
منہ بسورتے لوٹتا ہوں
رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں
’’یہ لے لو خواب۔۔۔‘
اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
18جنوری 1997ء کو لاہور کی سیشن کورٹ میں ممنوعہ فرقہ وارانہ جماعت سپاہ صحابہ کے دو مرکزی لیڈر مولانا اعظم طارق اور مولانا ضیاء الرحمن فاروقی ایک مقدمے میں اپنی پیشی پر حاضر تھے۔ تمام میڈیا وہاں موجود تھا۔ کیمرے کندھوںسے اتر چکے تھے۔ تصاویر اتاری جا رہی تھیں کہ اچانک زوردار بم بلاسٹ ہوا جو کہ ایک موٹرسائیکل میں نصب کیا گیا تھا۔ 34سالہ فوٹوجرنلسٹ عارف علی اس موٹرسائیکل سے 10فٹ کی دوری پر اپنے پیشہ وارانہ فرائض ادا کر رہا تھا۔ اس کا کیمرہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور اس کے پیٹ اور ٹانگوں سے خون بہنے لگے۔ وہ گر پڑا مگر اس نے اپنے حواس قائم رکھے۔ پولیس والوں نے عارف علی کو اپنی گاڑی میں لٹایا اور دوسرے زخمیوں کے ساتھ میوہسپتال لے گئے۔ عارف علی تین دن تک بولنے اور حرکت کرنے کے قابل نہ ہوا۔ پیٹ اور ٹانگوں پر گہرے زخم آئے تھے۔
اس کا ایک ساتھی فوٹوجرنلسٹ زیڈ اے شاہد اس دھماکے میں ہلاک ہوا۔ اس کے دوسرے ساتھی عابد حسین، ریاض احمد، ندیم احمد اور ایس اے رضا بُری طرح زخمی ہوئے مگر انہیں جلد ہی ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ دیگر 50 لوگ بھی زخمی ہوئے جبکہ سپاہ صحابہ کے مولانا فاروقی ہلاک ہو گئے اور اعظم طارق بچ گئے، یہی اصل نشانہ تھے۔ بم نصب کرنے اور ریموٹ سے چلانے پر محرم علی جو دوسری فرقہ وارانہ جماعت کا کارکن تھا گرفتار کر لیا گیا۔ اور ستمبر 1997ء میں محرم علی کو عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا۔ عارف علی اپنے دوست اور ساتھی زیڈ اے شاہد کی موت نہ رو سکا نہ چلا سکا۔ بس اسے یاد کرتا رہ گیا۔ اس بم دھماکے کے کیس میں پولیس نے عارف علی کو عینی شاہد بنانا چاہا مگر اس نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے اہل خانہ کو غیرمحفوظ نہیں کرنا چاہتا۔ عارف علی چھ ماہ تک بستر پر رہا۔ زخم مندمل ہوئے تو اس نے آفس حاضری دی تب اسے کہا گیا کہ اب اسے فیلڈ میں نہیں بھیجا جائے گا۔ آفس میں ہی بیٹھ کر کام کرنا ہوگا۔ مگر اس کا جواب تھا کہ ’’میں اور میرے ساتھی اس فوجی کی طرح ہیں جو اگلے مورچوں میں جنگ کرتا ہے اور ہمیں اپنے تحفظ کے کچھ اور طریقے اپنانا ہوں گے۔
جنرل مشرف کے دور میں وکلاء تحریک کا آغاز ہوا۔ لاہور ہائی کورٹ کے باہر پولیس وکلا پر لاٹھی چارج کر رہی تھی، آنسو گیس کی شیلنگ جاری تھی۔ میڈیا کے آگے پولیس نے دیوار کھڑی کر دی ہے۔ عارف علی ہائی کورٹ کی دیوار پھلانگ کر اندر کود گیا اور مطلوبہ تصاویر اتارنے لگا۔ یہاں بھی اس نے خود کو خطرے میں ڈال دیا تاہم ایک جنگ تھی جسے اسے جیتنا تھا۔
58سالہ عارف علی کا کیریئر 30برسوں پر محیط ہے۔ ان کے والد محمد حسین مرحوم فوج میں تھے۔ عارف علی کا آبائی گھر بی بی پاک دامن کے گنجان علاقے میں ہے جہاں وہ آج بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ عارف علی کی بہترین تصویر ایک بچے کی تصویر تھی۔ وائٹ چیپل آرٹ گیلری (لندن) میں ایک تصویری نمائش کا انعقاد ہوا۔ اس میں عارف علی کی تصویر بھی رکھی گئی۔ پاکستان ، بنگلہ دیش اور انڈیا کی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ پر مشتمل تصاویر کتاب کی صورت شائع ہوئی تو کتاب کا ٹائٹل عارف علی کی تصویر سے مزین تھا۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے ماحولیات کے حوالے سے ایک تصویری مقابلے میں عارف علی کی تصویر کو ایوارڈ دیا۔
عارف علی کی شروعات مختلف نوعیت کی ہے۔ اس کی دلچسپی خطاطی اور ڈیزائنگ میں تھی۔ خطاطی میں ان کے استاد غلام رسول تھے۔ فوٹوگرافی میں راحت علی ڈار اور عابد شمسی سے کچھ رموز سیکھے۔ سب سے پہلے ’’دی مسلم‘‘اخبار میں فری لانسنگ کی۔ بعدازاں 13سال ’’دی نیوز‘‘ میں کام کیا۔ 2007ء میں ’’ڈان‘‘ اخبار جوائن کیا جہاں اظہر حسین جعفری اور طارق محمود سے بہت کچھ سیکھا۔
پہلی فوٹوگرافی کی نمائش برنی گارڈن الحمرا میں ہوئی جہاں اظہر حسین جعفری، راحت ڈار، محسن رضا کے ساتھ عارف علی کی تصاویر کو بھی رکھا گیا۔ دوسری تصویری نمائش ’’رنگ برسے‘‘ کے نام سے شاکر علی میوزیم میں ندیم خاور، عمیر غنی اور عارف علی کی مشترکہ طور پر ہوئی۔
عارف علی کا کہنا ہے’’میرے استاد مجھے تصویر اتارنے کے لیے بھیجتے تھے۔ میں انہیں لا کر دکھاتا، وہ مطمئن نہ ہوتے۔ دوبارہ بھیجتے، بار بار جاتا___جب تک انہیں تصویر پسند نہیں آتی تھی۔ میں ہمت نہیں ہارتا تھا۔ گو اپنے آپ میں مگن اور خاموش طبع عارف علی کا کہنا ہے کہ بعض اوقات آپ کو کام کے دوران سیچوایشن مختلف ملتی ے۔ اکثر غروب آفتاب بنانے کے لیے دریائے راوی پر جاتے ہیں مگر وہاں تو آج ماحول بدل چکا ہے۔ انواع و اقسام کا رش ہے جس میں غروب آفتاب کو منعکس کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔‘‘
عارف علی یہ بھی کہتے ہیں کہ’’کام میں خطرہ مول لینا پڑتا ہے تب ہی مقصد حاصل ہوتا ہے۔‘‘ مگر جب عارف علی آج بھی صبح کام کے لیے گھر سے باہر قدم نکالتے ہیں تو ان کے اہل خانہ ان سے یہی کہتے ہیں۔
’’اپنا خیال رکھنا۔‘‘