توہین صحابہ کرام و اہلبیت بل 2023 کیا ہے؟
تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 کا تعلق توہین مذہب سے ہے۔ دفعہ 298 کے مطابق کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے جان بوجھ کر کوئی لفظ کہنا، آواز نکالنا یا کوئی چیز سامنے لانا جرم ہے اور اس جرم کی سزا ایک سال قید، جرمانہ یا دونوں قرار دی گئی ہیں۔ 1980 میں ضیاء الحق دور میں دفعہ 298 میں آرٹیکل اے کا اضافہ کیا گیا، جس کے تحت مقدس شخصیات منجملہ امہات المومنینؓ، اہل بیتؑ، صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدینؓ کے بارے میں توہین کا اظہار کرنے پر 3 سال قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں ہی 1984 میں اسی دفعہ 298 میں مزید ترمیم کی گئی اور شق نمبر 298 بی شامل تعزیرات کی گئی۔ اس شق کے مطابق اسلام کی سر برآوردہ شخصیات کے لیے استعمال ہونے والے القابات، خصوصیات یا اوصاف کو احمدی استعمال نہیں کر سکتے۔ اس جرم کی سزا 3 سال قید یا جرمانہ رکھی گئی ہے۔
298اے میں موجودہ ترمیم جو 2023 میں پارلیمان میں پیش کی گئی اس میں آیا ہے کہ سزا جو 3 برس کی ہے، اس کو بڑھا کر کم سے کم 10 برس اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ ایکٹ نمبر 5 بابت 1898، جدول دوم میں درج ذیل ترامیم کی جائیں؛
قابلِ ضمانت کو ناقابل ضمانت کیا جائے،
سمن کو وارنٹ کیا جائے،
3 برس سزا کو عمر قید کیا جائے،
اور درجہ اول یا درجہ دوم مجسٹریٹ کو سیشن عدالت سے بدلا جائے۔
شیعہ مکتبہ فکر کو اس ترمیم پر کیا اعتراض ہے؟
1۔ توہین و تنقیص کی تعریف معین نہیں کی گئی۔
2۔ صحابیت اور اہلبیت کے مصادیق واضح نہیں، ہر مسلک کی اپنی تشریح ہے جس کے سبب آج جناب ابو سفیان کی توہین پر بھی مقدمات ہو رہے ہیں۔
3۔ اس جرم کی ایسی سزا قرآن و سنت سے ثابت نہیں۔ بطور مثال ملاحظہ ہو سنن نسائی حدیث 4076، مسند احمد بن حنبل حدیث 9622، وغیرہ۔
4۔ بل کو پاس کروانے کے لیے تمام مراحل کی پاسداری نہیں کی گئی۔ قومی اسمبلی ممبران میں سے 8 اور سینیٹ سے 20 ممبران نے بل کو پاس کیا۔
5۔ ایک دن میں 122 بل پیش کیے گیے۔ سینیٹرز کہتے ہیں ہم کون کون سا بل پڑھتے۔ محترمہ شیریں رحمان صاحبہ نے اس پر احتجاج بھی کیا کہ اس بل کو متعلقہ کمیٹی میں بحث کے لیے نہیں لے جایا گیا حالانکہ یقین دلوایا گیا تھا کہ بل کمیٹی میں جائے گا۔
6۔ بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی نہیں بھیجا گیا۔
7۔ پاکستان میں فقہ جعفریہ کے ماننے والوں پر کسی دوسری فقہ کے علماء کا بنایا قانون مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اسی بنیاد پر زکوٰۃ کے مسئلے اور وراثت کے مسئلے میں جداگانہ قانون سازی کی گئی ہے۔
8۔ اس قانون کا سب سے خطرناک پہلو اس کا نادان نوجوانوں پر اطلاق ہے۔ 15 سے 20 سال کا بچہ سنی بچوں اور اسلامیات کے متعصب استادوں کے طعنوں کے جواب میں کچھ کہہ دے تو ساری جوانی جیل میں مجرموں کے ساتھ رہے گا۔ اس سے ملک کا انسانی سرمایہ ضائع ہو گا۔ وہ کوئی تعلیم حاصل نہ کر کے کچھ کمانے اور ملکی معیشت میں حصہ ڈالنے کے قابل نہیں رہے گا۔
9۔ آئین ہر شہری کو اپنے مذہب و مسلک کی تبلیغ کا حق دیتا ہے۔ اس قانون سے شیعوں کا یہ بنیادی انسانی حق معطل ہو جائے گا۔
10۔ یہ قانون پاکستان کے مذہبی تنوع کو ختم کر دے گا جو پاکستان کا تاریخی اور ثقافتی ورثہ ہے۔
11۔ کسی کی توہین سے لوگوں کو روکنا ایک اخلاقی معاملہ ہے جسے تعلیم و تربیت کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ قرآنِ کریم میں بتوں کی توہین سے بھی روکا گیا ہے (سورہ الانعام، آیت 108) لیکن اس کی بنیاد پر اگر ہندوستانی سرکار توہینِ اصنام بل بنا کر مسلمانوں کو اخلاقی پولیس کی مدد سے جیلوں میں ڈالنے لگے تو کیا یہ مناسب عمل ہو گا؟
ضمیمہ
8 اپریل 1940 کو راج کمار امیر حیدر خان کے خط کے جواب میں قائد اعظم محمد علی جناح، جو خود بھی شیعہ اثنا عشری تھے، نے یقین دلایا کہ شیعوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ کیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا تھا:
I see no reason why the Shias should be debarred from having their voice in the elected bodies and governmental institutions in any matter which affect the Shias. We must so organise the Muslim League that justice is done to every sect and section inside it. Then as regards the liberty of religious observances and beliefs for Shias, surely it is quite elementary that, if the Muslim League organisation is worth anything, it must see that no infringement of that liberty is allowed … As regards the Shia Waqfs, I do not see what objection can there be to their being exclusively under control of the Shias. … if law is passed in accordance with the Muslim Hanafi Law, the special principles of Shia Shariat must also be taken into consideration. (1)
اسی طرح قائد اعظم کے 14 نکات میں بھی یہ اصول شامل ہے کہ:
No bill or resolution shall be passed in any legislature if three-fourths of the members of any community in that body oppose the bill.
ترجمہ: مجالسِ قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے منافی قرار دیں۔
حوالہ:
1. Andreas Rieck, "The Shias of Pakistan", page 43, 2015.