اس کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ یہ دو لوگ؟ ان دونوں کو تو وہ کبھوں کا شکست دے چکا تھا۔ نواز شریف؟ اسے تو 2017 میں 'کھڈے لائن' لگا دیا تھا۔ 10 سال کے لئے نااہل، لندن میں جلا وطنی کاٹتا نواز شریف اس کے خیال میں اب کبھی 'طاقت' کے ایوانوں کے قریب نہیں پھٹک سکتا تھا۔ نواز شریف ہی کیا، سب سے بڑے صوبے میں بیٹھا اس کے ادارے کا سب سے بڑا افسر لوگوں کو بلا بلا کر کہتا تھا، اب ان لوگوں کو بھول جائیں۔ یہ سب ماضی کے قصے ہیں۔ شہباز شریف صاحب اچھے آدمی ہیں لیکن اب سسٹم میں ان کی جگہ نہیں۔ “Sharifs are out for good”۔
اور عاصم منیر؟ وہ تو لائن میں ہی نہیں تھا۔ اس کا تو نام ہی ان جرنیلوں کی فہرست سے خارج ہو چکا تھا۔ یہ کیسے واپس اس لسٹ پر آ گیا؟ اس کو تو کور کمانڈر ہی ایسے موقع پر لگایا گیا تھا کہ یہ کمانڈ میں تبدیلی کا موقع آنے تک ریٹائر ہو چکا ہو۔
یعنی وہ دو لوگ جن کے لئے پوری گھات لگائی تھی، وہ اس کام کو خراب کر رہے تھے جس کام کے لئے عمران کو لایا گیا تھا اور پھر سب جماعتوں کے ترلے منتیں کر کے باجوہ کو پہلی توسیع بھی دلوائی تھی۔ سب کیے کرائے پر پانی پھر چکا تھا۔ دس سالہ منصوبہ ہوا میں تحلیل ہو چکا تھا۔ باجوہ کے 3 سال، پھر توسیع۔ پھر میرے 3 سال، پھر توسیع۔ سب اچھا کی رپورٹ۔
سپریم کورٹ میں بھی گیم سیٹ تھی۔ ثاقب نثار، پھر کھوسہ، پھر گلزار، پھر بندیال، پھر۔۔۔۔ پھر قاضی فائز عیسیٰ ہے لیکن اس کو نکلوا دیں گے۔ ریفرنس بن جائے گا، اس کی چھٹی ہو جائے گی۔ ہمیں کون روک سکتا ہے؟ اعجاز الاحسن کو دو سال مل جائیں گے۔ آگے منصور کے دو سال ہیں، وہ بھی کیا ہی کر لے گا؟ زیادہ چوں چوں کی تو ریفرنس تو اس کے خلاف بھی آ سکتا ہے۔ سب اچھا کی رپورٹ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس 'manage' تھا۔ مستقبل کا چیف جسٹس 'دو سال کی محنت' کو ضائع کر سکتا تھا سو رستے سے ہٹایا جا چکا تھا۔ نئے چیف جسٹس کی وہ لطیفے والے سردار جی کے بقول 'شو شا تے بڑی سی' لیکن۔۔۔ ادھر بھی 'سب اچھا' کی ہی رپورٹ تھی۔
تو اب یہ کیا ہو رہا تھا؟ سب تبدیل کیسے ہوا؟ شہباز شریف اقتدار میں آ گیا، قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پٹ گیا اور اب اس کو چیف جسٹس بننے سے روکنا ناممکن؟ عمران خان پر کی گئی ساری سرمایہ کاری ناکام، اقتدار سے باہر؟ نواز شریف لندن بیٹھ کر قسمتوں کے فیصلے لکھ رہا ہے؟
اس نے ٹل کا زور لگا لیا لیکن نواز شریف نے اس کی ایک نہ سنی۔ باجوہ نے کہا فیض کو نہیں لگانا تو ان دونوں میں سے کسی کو لگا دو لیکن عاصم منیر کو لگایا تو مارشل لاء لگا دوں گا۔ لیکن یہ حربہ بھی ناکام ہو چکا تھا۔ عمران خان کا دھرنا ناکام ہو چکا تھا، ہمیشہ کی طرح۔ باجوہ کا مہرہ فیض پٹ چکا تھا۔ عاصم منیر آرمی چیف بن چکا تھا۔ اور اس کو بنانے والا نواز شریف تھا۔ Sharifs afterall were ‘not out for good’۔
خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
فیض حمید سے شاید یہ سب برداشت نہیں ہوا۔ اسے فوجی دوست پیار سے The Cunning Fox کہا کرتے تھے۔ نجی محافل میں اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے رشک سے Evil Genius کہا کرتے تھے۔ اور اب یہ outfox ہو چکا تھا۔ یہ جونیئر تھا لیکن مدت ملازمت ختم ہونے سے 6 ماہ پہلے ہی اس سے، بقول ایک سینیئر رپورٹر کے استعفا بھی لیا جا چکا تھا۔ اس کی انا کو شدید ٹھیس لگی تھی۔
خود آرمی چیف نہ بننے کا دکھ اپنی جگہ، اصل تکلیف تو رقیب کے جیت جانے کی تھی۔ یہ ناقابلِ قبول تھا۔ یہی موقع تھا جب اس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ 'دو سال کی محنت' تو ضائع ہو چکی تھی۔ لیکن جو ایک دہائی سے زیادہ سیاسی جماعتوں، بیوروکریسی اور اوپر سے لے کر نیچے تک نظامِ عدل میں جگہ جگہ 'محنت' کر رکھی تھی، اسے تو بروئے کار لایا جا سکتا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر ادارے کے اندر والی محنت کو اگر اب رنگ نہیں لانا تھا تو کب لانا تھا؟
اس نے 6 ماہ میں جی توڑ کوشش کر ڈالی۔ اسے بھی علم تھا اور پورے ملک کو بھی کہ کسی نہ کسی موقع پر عمران خان کو گرفتار کیا جانا تھا۔ اس نے اسی موقع کے لئے فیلڈنگ لگا رکھی تھی۔ جنرل باجوہ اپنی مرضی کے کور کمانڈر لگا کر عاصم منیر کے لئے پہلے ہی کانٹوں کا جال بچھا کر گئے تھے۔ نظامِ عدل میں اوپر سے نیچے تک جگہ جگہ ہوئی محنت بھی "Good to see you" کہنے کو بے قرار بیٹھی تھی۔ 9 مئی کو گرفتاری ہوتے ہی پورا سسٹم حرکت میں آ گیا۔ منصوبہ یہ تھا کہ عمران خان کے گرفتار ہوتے ہی ایک عوامی ردِعمل آئے گا۔ ادارے کے اندر ہوئی محنت رنگ لائے گی۔ کچھ لوگ آرمی چیف کو بتائیں گے کہ سر Dhaka has fallen۔ اب آپ بھی یحییٰ خان بن چکے ہیں۔ مہربانی فرما کر استعفا دیں اور گھر جائیں۔
لیکن، ایک بار پھر، ہمیشہ کی طرح، مہرہ پٹ گیا۔ لوگ سڑکوں پر تو آئے، 'جلا دو، گرا دو' تک کے آرڈر بھی بجا لائے گئے۔ لیکن 'مار دو، مر جاؤ' والا کارڈ کھیلنے کی مہلت نہیں مل سکی۔ چھ ماہ میں یہ دوسری سازش بھی ناکام بنا دی گئی۔ زندگی کی سب سے بڑی بازی میں بھی شکست اس کا مقدر ٹھہری۔
اب حالت یہ ہے کہ ایسے لوگ جو خود کو آگے پیچھے تو بڑا سگا ثابت کرتے ہیں، اس کے خلاف بیانیہ بنانے میں وہی استعمال ہوئے۔ انہوں نے ہی بتایا کہ پوری پارٹی اب بھی فیض چلا رہا ہے۔ 12 اگست کو گرفتاری عمل میں آ گئی۔ اب سنا ہے مزید گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی۔ بیوروکریسی کے اندر سے بھی 'محنت' کا ایک 'ثمر' ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل محمد اکرم گرفتار ہو چکا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ ایک سابق چیف جسٹس بھی ٹاپ سٹی کیس میں شکنجے میں آ سکتا ہے۔ اعجاز الاحسن اور مظاہر نقوی بیچارے پہلے ہی فارغ ہو چکے۔ اب ایک اور کردار اپنے انجام کو پہنچنے کے قریب ہے۔
کہانی اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ فاتح کون ٹھہرا، اس کا فیصلہ تو اسی دن ہو گیا تھا جب 'وہ دو لوگ' جن کو اپنے تئیں یہ کبھوں کا شکست دے چکا تھا اقتدار میں آئے تھے۔ اب تو صرف یہ طے ہونا ہے کہ اس کی انا کی بھینٹ اور کون کون چڑھے گا۔