مگر اس فلم میں ایک الگ بات یہ تھی کہ زومبی دو طرح کے تھے، ایک زومبی جو بعد میں دل میں محبت، دوستی کا احساس جاگنے سے نہ صرف انسان بن گئے بلکہ انسانوں کو زومبیوں کے ہی دوسرے گروہ جو انسان بننے سے قاصر تھا کے حملے سے بچانے کے لئے ان سے لڑے بھی۔
میرے لئے زومبی بس وہ مخلوق تھی جس میں بس ایک احساس باقی ہو، سوائے بھوک کے وہ ہر سوچ سے عاری سادگی سے کہو تو زندہ لاشیں تھیں مگر اس فلم میں جانا کہ لاشوں میں بھی محبت کے، انسان دوستی کے جذبے جاگ جائیں تو وہ سانس لینے لگتی ہیں ورنہ ایک کراہیت بھری موت بانٹتی مخلوق ہیں۔
آج صبح جب گھر کا کچھ سامان لینے نکلی تو اس دکان کے باہر دو چار لوگوں کا دو حصوں منقسم چھوٹا سا گروہ دیکھا۔ وہ لوگ دو مختلف سیاسی جماعتوں کے حامی تھے اور اپنی اپنی جماعت کے دفاع میں اس قدر مگن تھے کہ مجھے احساس ہوا کہ وہ بھی سوچنے، سامنے والے کی بات سمجھنے، حقیقت کو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں، ان کا ذہن بس ایک ہی بات پر اٹکا ہے اس کے علاوہ کچھ بھی سمجھ پانا ان کے لئے ناممکن ہے۔ جیسے کہ وہ ذہنی طور پر زومبی بن گئے ہوں۔ ایک سوچ والے ہم صحیح، باقی سب غلط۔ مار ڈالو اپنے لفظوں کے تیر اور تحقیر سے جو آپ کے گروہ سے باہر کا ہو۔ عجیب سا احساس اور ڈر لگا ان کے ذہنی طور پر یکطرفہ رویے کو دیکھ کر۔
ابھی اس احساس سے سنبھلی نہ تھی کہ گھر کے گیٹ پر دو خواتین کی موجودگی، جو کہ بہت زور شور سے کسی مذہبی پروگرام کی دعوت دینے آئی تھیں، اور وہی یکطرفہ سوچ والا رویہ کہ آپ دین کے لئے وقت کیوں نہیں نکال سکتیں۔ اب لاکھ کوشش کی، بتایا اس وقت گھر میں دو بچے، ایک بزرگ اور ایک ذہنی معذور شخص کو میری بہت ضرورت ہوتی ہے، میں نہیں آ پاؤں گی مگر کبھی زومبی بھی کچھ سمجھ سکے ہیں؟ جو ان کے گروہ میں سے نہیں وہ ان کا شکار ہو گا۔
گھر آ کر کچھ دیر سکون سے بیٹھی تو ساتھ رکھا فون اٹھا لیا۔ وہاں بھی وہی دو مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے پیشے کا تقدس بھلا کر سامنے والے گروہ کو شکار کرنے کے درپے تھے۔
غرضیکہ ایک عجیب سی افراتفری مچی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ میرا ملک انسانوں کے بجائے مختلف طرح کے زومبیز کا ٹھکانہ ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ اس فلم میں موجود زومبی بھوک کے علاوہ ہر احساس سے عاری تھے، اور میرے ملک کے رہنے والے اپنی سوچ کے، اپنے عقیدے کے، اپنی بات کے علاوہ ذہنی طور پر کچھ بھی اور سوچ اور سمجھ پانے کی حسیات کھو بیھٹے ہیں۔
اور یہ چھوٹے چھوٹے گروہ ہر اس انسان کو مار دینے کے درپے ہیں جو ان کی راہ میں آئے، اور سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کے دل اب دلیل تو کیا انسانیت اور محبت کی بھی روشنی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان کا دوبارہ سے انسان بن پانا اب قریب قریب ناممکن ہو چکا ہے۔
جانے پہچانے راستوں پر آنکھیں بند کر کے چلنے کی عادت اتنی پختہ ہو چلی ہے کہ اب اگر کوئی اس راہ کو غلط کہنے کی ہمت کرے تو اس کی خیر نہیں۔ اور آپ کو آپ کی راہ پر چھوڑ کر وہ کوئی اور راہ اپنائے، تو پھر تو وہ مخالف گروہ کا ہوا۔ اب تو اس کو نوچ کھانا لازمی ٹھہرا۔
خود سوچیے نا! اگر سبھی ایک ایک کر کے راستہ بدلنے لگے تو معاشرے اور مذہب کی انسانوں پر اجارہ داری کیسے قائم رہے گی؟
انسانیت اونچی ہو گئی تو عقیدوں اور رسموں کے نام پر صدیوں سے قائم بادشاہت کی بنیادیں نہ ہل جائیں گی۔ دلیل اور عقل کی مان لی تو اندھی عقیدتیں کیسے پنپیں گی۔
اسی لئے تو خاتون ہو یا مرد، بچہ ہو یا بوڑھا جو اس گروہ سے الگ ہوا اس کا قتل عام باعث فخر ٹھہرا دیا گیا ہے، اور اب انسانوں کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی اپنی جگہ دبکے رہیں۔ باہر نکلے یا اپنی موجودگی کا احساس دلایا تو موت پکی۔
مگر پتہ ہے اس فلم میں ایک خوش آئند بات تھی کہ بہت دیر تک یہ احساس ہی نہیں ہو پاتا کہ زومبی بدل رہے ہیں، انسان بن رہے ہیں۔ مگر میرے زومبی بہت چالاک ہیں۔ آپ سے بار بار کہلوا کر آپ کی عزت نفس کے خون کے بڑے گھونٹ بھرنے کے بعد بھی یقین نہیں کرتے۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ زندگی کے خوف سے جھوٹ بول رہے ہیں آپ، اس لئے وہ آپ پر حملے کی منصوبہ بندی میں لگے رہتے ہیں۔
جب سے یہ احساس ہوا، عجیب سے ڈر کے گھیرے میں ہوں۔ خود کو سمجھانا بھی چاہا کہ وہ تو صرف ایک فلم تھی، چھوڑو پرے، ایسا کچھ نہیں۔ پھر بھی دل مسلسل مصروف دعا ہے کہ اللہ کرت زیادہ لوگوں کے دل میں کہیں احساس کی روشنی باقی ہو، ان کے دل انسانیت کے دکھ سے دھڑک اٹھیں، شعور زندگی بن کر رگوں میں دوڑنے لگے اور اس زومبی ایپوکلپس کا خاتمہ ہو جائے۔
اگر تو یہ میرا وہم ہے تو دعا کیجئے کہ جان چھوٹ جائے میری اس سے، اور اگر چھٹی حس، تو دو ہی کام ہیں کرنے کے۔ ان ذہنی زومبی کے انسان بن جانے کی دعا کرتے رہیں اور جہاں ہیں وہیں دبکے رہیں کہ باہر خطرہ بہت ہے۔