مگر یہ لیڈران نہیں جانتے تھے کہ ان کا مستقبل کس قدر خوفناک ہونے جا رہا تھا۔ اگلے چند سالوں میں دنیا بھر میں ٹی وی سکرینز اور اخباری سرخیاں ان کے بہیمانہ قتل کی خبروں سے بھری جانے والی تھیں کیونکہ عالمی استعمار جسے 1974 کی اسلامی سربراہی کانفرنس نے اپنے ترانے 'ہم مصطفوی ہیں' میں 'استعمار ہے باطلِ ارذل' کہہ کر للکارا تھا، ان سربراہوں کو نشانِ عبرت بنانے پر تلا تھا۔
شاہ فیصل کا بھتیجے کے ہاتھوں قتل
شروعات سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل سے ہوئی۔ سعودی عرب OIC کا بانی بھی تھا اور شاہ فیصل بہت تیزی سے اپنے ملک میں ناصرف سماجی جدت لا رہے تھے بلکہ انہوں نے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران تیل کی پیداوار روک کر مغربی دنیا کو یہ پیغام بھی دے دیا تھا کہ آلِ سعود حجاز میں بھلے انگریز کی مرہونِ منت اقتدار میں آئی ہو لیکن شاہ فیصل آزادانہ فیصلے لینے کے بالکل اہل تھے۔ لہٰذا 25 مارچ 1975 کو، اس اجلاس کو گزرے جب بمشکل ایک سال ہی ہوا تھا، شاہ فیصل کویت سے آئے ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے جس میں ان کے سوتیلے بھائی مساعد بن عبدالعزیز کا بیٹا فیصل بن مساعد بھی تھا۔
مساعد بن عبدالعزیز کا ایک اور بیٹا شہزادہ خالد بن مساعد چند برس قبل شاہ فیصل کے خلاف ایک احتجاج کا حصہ تھا کہ جہاں پولیس کی گولی لگنے سے یہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ فیصل بن مساعد اس وقت امریکہ میں مقیم تھا۔ لیکن اس روز یہ کویتی وفد کے ہمراہ شاہ فیصل کے محل میں پہنچا۔ شاہ فیصل نے اپنے بھائی کو پہچان لیا اور اپنا ماتھا اس کے آگے کیا تاکہ یہ اس کو چوم سکے لیکن اس نے یکایک اپنی جیب سے پستول نکال کر گولی چلا دی۔ ایک گولی شاہ فیصل کی تھوڑی پر لگی جب کہ دوسری ان کے کان کے آر پار ہو گئی۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا لیکن یہ جانبر نہ ہو سکے۔
فیصل بن مساعد نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا اور اس کا سر 18 جون 1975 کو قلم کر دیا گیا۔
شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیشی فوج کے ہاتھوں قتل
شاہ فیصل کے اس بہیمانہ قتل کے محض پانچ ماہ بعد بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کا بھی قتل کر دیا گیا۔ یہ قتل ان کی فوج کی جانب سے کیا گیا جس نے ساتھ ہی اقتدار پر قبضہ بھی کر لیا۔ شیخ مجیب نے 1974 ہی میں بنگلہ دیش کی اس تنظیم میں شمولیت کی درخواست دی تھی اور یہ اس کانفرنس میں شرکت کے لئے لاہور بھی آئے۔ ان کے اس دورے سے ناصرف دونوں ممالک میں کدورتیں کم ہوئیں بلکہ بنگلہ دیش کی OIC میں شمولیت کا اعلان بھی یہیں ہوا۔
15 اگست 1975 کو بنگلہ دیش میں مارشل لا لگا تو کچھ فوجی جوانوں نے صدارتی ہاؤس میں گھس کر شیخ مجیب اور ان کے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا۔ موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اور ان کی بہن شیخ ریحانہ خاندان کی دو ہی افراد تھیں جو زندہ بچ سکیں کیونکہ یہ اس وقت جرمنی میں تھیں۔ یہ سازش فوجی افسران اور عوامی لیگ میں شیخ مجیب کے کچھ ساتھیوں نے مل کر رچی تھی۔ بہت سی افواہیں گردش کرتی رہیں کہ یہ قتل امریکہ کی CIA نے کروایا تھا۔ یاد رہے کہ جنرل ضیاالرحمان جس نے یہ مارشل لا لگایا، اسی نے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان بھی کیا تھا اور بعد ازاں شیخ مجیب کو قتل کر کے ملک کے اقتدار پر اس نے قبضہ بھی کر لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل
اس کانفرنس کو یقینی بنانے میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے انہوں نے اپنی سفارتی قابلیت کے ایسے جوہر دکھائے کہ پہلی بار اسلامی دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے سربراہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے۔ 1971 کی جنگ میں بھارت کے ہاتھوں شکست اور بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد اس وقت پاکستان اقوامِ عالم میں اپنا مقام دوبارہ سے بنانے کی تگ و دو میں مصروف تھا۔ ایسے حالات میں یہ بھٹو صاحب کی حکومت کا عظیم کارنامہ تھا کہ اس نے پاکستان کو ایک بار پھر دنیا بھر کی نظروں کا مرکز بنا دیا۔ اس کانفرنس کے ذریعے انہوں نے پاکستان کی عالمی تنہائی کو بھی ختم کیا۔
اس کانفرنس کے بعد وہ چاہتے تھے کہ پاکستان پوری تیسری دنیا کا رہنما ملک بن کر ابھرے۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 1977 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ لیکن ان کے مخالف 9 جماعتوں کے اتحاد نے دعویٰ کیا کہ یہ الیکشن دھاندلی زدہ تھے اور 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاالحق نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ضیا حکومت نے بھٹو پر محمد علی قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا اور عدالتِ عظمیٰ نے انہیں حیرت انگیز طور پر 4-3 کے فیصلے میں سزائے موت سنا دی۔ 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ سزائے موت دینے والے چار ججز میں سے ایک جسٹس نسیم حسن شاہ نے کئی برس بعد یہ اعتراف کیا کہ اس سزائے موت کو کم کیا جا سکتا تھا۔
صدر انور سادات کا پریڈ کے دوران قتل
مصر کے صدر انور سادات بھی اس کانفرنس میں شریک تھے اور ان کو بھی بعد ازاں 'اسلامک جہاد' سے تعلق رکھنے والے خالد اسلامبولی نے قتل کیا (گو کہ جامعہ اسلامیہ کے طلعت قاسم کا دعویٰ ہے کہ یہ قتل اسلامک جہاد نے نہیں بلکہ ان کی اپنی تنظیم نے کیا تھا)۔
خالد اسلامبولی نے انور سادات کو اس وقت قتل کیا جب وہ Annual Day پر فوج کی پریڈ کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ اسلامبولی خود بھی مصری فوج کا ایک لیفٹننٹ تھا۔
انور سادات کے قتل کا فتویٰ ایک نابینا مولوی عمر عبدالرحمٰن نے دیا تھا جو کہ زندگی کا زیادہ تر حصہ امریکہ میں گزار کر 18 فروری 2017 کو شمالی کیرولینا میں فوت ہوا۔
یاسر عرفات کا زہر کے ذریعے قتل
یاسر عرفات Palestine Liberation Organisation کے سربراہ تھے۔ 1974 میں لاہور میں ہوئی کانفرنس میں یہ بھی شریک تھے۔ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمت میں اہم ترین کردار کے حامل یاسر عرفات کو 2004 میں مبینہ طور پر اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی کی جانب سے زہر دیا گیا۔ گو موت کے سبب پر خاصی بحث رہی ہے، لیکن غالب تھیوری یہی ہے کہ ان کے خون میں HIV کے جرثومے پائے ضرور گئے تھے لیکن ان کی موت زہر کے باعث ہوئی۔
معمر قذافی کو سرت کی گلیوں میں گھسیٹا گیا
معمر قذافی اس کانفرنس کے شرکا میں سے قتل ہونے والے آخری مسلم دنیا کے رہنما تھے۔ 20 اکتوبر 2011 کو لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی جنہوں نے ستمبر 1969 میں ایک coup کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تھا، باغیوں کو ایک ڈرینیج کے پائپ میں چھپے ملے جہاں یہ نیٹو کی بمباری سے بچنے کے لئے پناہ لیے ہوئے تھے۔ لیبیا کی خانہ جنگی جس میں معمر قذافی کے مخالفین کو امریکہ اور نیٹو کی پشت پناہی حاصل تھی کے شروع ہونے کے بعد دارالحکومت تریپولی پر قبضہ ہو چکا تھا اور معمر قذافی اس کے بعد سرت میں پناہ گزین تھے۔
اس دن بھی وہ وادی جرف کی طرف جانے کی کوشش کر رہے تھے جب نیٹو نے ان کے قافلے پر بمباری کی۔ اس سے بچنے کے لئے وہ پائپ میں چھپے تھے اور اس بمباری کے دوران ان کے سر پر چوٹیں بھی آ چکی تھیں۔ تقریباً مردہ حالت میں باغیوں کو ملنے کے بعد قذافی کو ہجوم نے قتل کر دیا اور ان کی لاش کو سرت کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ لیبیا ان کے قتل کے بعد سے خانہ جنگی سے بھی بامرِ محال ہی چھٹکارا پانے کے قابل ہوا ہے اور آج بھی غیر مستحکم ہے۔ ملک کے بیشتر علاقوں پر فوج قابض ہے اور باقی پر مذہبی شدت پسند تنظیمیں۔