گوادر:سی پیک تعمیرات پر بھاری مشینری کا استعمال، مقامی لوگوں کے گھروں میں دراڑیں پڑ گئیں

01:00 PM, 15 Dec, 2021

جاوید بلوچ
گوادر کے مشرقی ساحل پر تعمیر ہونے والی نئی شاہراہ، ایسٹ بے ایکسپریس وے جسے مقامی طورپر سی پیک روڈ کہا جاتا ہے کے بننے سے مقامی آبادی کو شکایت ہے کہ گوادر پورٹ کو جانے والی اس شاہراہ کی تعمیرات پر بھاری مشینریز کے استعمالات سے ان کے گھروں کی دیواروں اور چھتوں پر دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ لوگوں کو خوف لاحق ہے کہ کسی بھی وقت ان کے گھر گر بھی سکتے ہیں۔ ایسٹ بے ایکسپریس وے کے قریبی آبادیاں جن میں ڈوریہ محلہ، کولگری وارڈ، شاہی بازار، گزروان وارڈ، بلوچ وارڈ اور نگوری وارڈ کے علاوہ بھی کچھ محلوں سے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ بھاری مشینریز کی زور دار آوازوں کے وجہ سے ان کے مکانات پر دراڑیں آئی ہیں۔

غلام قادر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ انھوں نے ابھی چند سال پہلے اپنا مکان تعمیر کیا تھا جس کی دیواروں پر اب بڑی بڑی دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ وہ فرش پر ہاتھ لگا کر کہہ رہے ہیں کہ یہ اب کھوکلا ہوچکا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ "جب رات کو وہ اپنا کام شروع کرتے ہیں تو میں بچوں کو جگاتا ہوں کہ باہر جاکر سو جائیں، زمین ہلنے لگتی ہے۔ وہ دیکھو دراڑ، یہ اس طرف والی دراڑ" وہ ہاتھ کے اشارے سے اپنے گھر کی دیواروں پر آنے والی دراڑیں دکھاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وہ خوفزدہ ہیں کہ کسی بھی وقت ان کے گھر گر سکتے ہیں۔



ماسی سکینہ کا گھر بھی ساتھ ہی ہے۔ وہ ہمیں اپنا گھر دکھانے کے لیے آئی ہوئی ہیں۔ سکینہ کا گھر دو کمروں پر مشتمل ہے دونوں کمروں کی دیواروں اور چھت پر دراڑیں ہیں۔ وہ دراڑیں دکھاتی ہوئی بے بسی کا اظہار کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس مہنگائی کے دور میں گھر تعمیر کرنا بہت مشکل ہے اور ان کے گھر اب کسی بھی وقت گر سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ"جب چائینیز لوگ کام کرنے لگتے ہیں تو دھماکوں جیسی آوازیں آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے زلزلہ آرہا ہو۔ زمین ہلتی ہے اور اوپر چھت کے ٹکڑے ہمارے سروں پر گرتے ہیں"۔ سکینہ کہتی ہے کہ ان کے گھر کا سروے تو کیا گیا ہے لیکن ابھی تک انھیں ایک روپیہ بھی نہیں ملا ہے۔ غلام قادر بھی گلہ کر رہا تھا کہ انھیں بھی کوئی حکومتی امداد نہیں ملی ہے۔



ہم سکینہ کے گھر سے نکلے ہی تھے کہ باہر کچھ اور لوگ جمع تھے جو شاید ہمیں سروے والا سمجھ رہے تھے۔ ہم نے اپنا تعارف کرتے ہوئے کہا کہ ہم صحافی ہیں اور ان لوگوں سے ملنے آئے ہیں جن کے گھروں پر دراڑیں آئی ہوئی ہیں ۔ محمد امین کولگری وارڈ کے سابقہ کونسلر رہے ہیں وہ ہمیں اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئے۔ امین کے گھر کی چھت لکڑی کی بنا ہوئی ہے جس کے بیچوں بیچ چھت ٹوٹ چکی ہے اور دیوار پر بھی کئی اطراف سے دراڑیں ہیں۔ امین گلہ کر رہے ہیں کہ اس سروے میں پسند و نا پسند کی بنیاد پر گھروں کا اندراج کیا گیا ہے۔ وہ ڈپٹی کمشنر کے نام پیغام دیتے ہیں کہ وہ خود آکر دیکھ لیں کہ کس کو امداد کی ضرورت ہے۔ امین کے مطابق یہ سروے شفاف طریقے سے نہیں ہوا ہے۔

چار شمبے کو بھی شکایت ہے کہ ان کے محلے میں چند متاثرین کو کچھ امدادی رقم مل چکی ہے مگر ان کے سمیت اکثر لوگوں کو کوئی امداد نہیں ملی۔ وہ اپنے گھر کی دیواریں دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے ادھار لے کر ان کے مرمت کی ہے تاکہ ان کے گھر گر نہ جائیں۔

جماعت اسلامی بلوچستان کے جنرل سیکریٹری اور گوادر کو حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن نے ان محلوں کا دورہ کرکے متاثرین کی ایک لسٹ ضلعی انتظامیہ کو دی ہے۔ مولانا بھی کہتے ہیں کہ ان لوگوں کو سی پیک متاثرین کہا جائے کیونکہ سی پیک نے خوشحالی اور ترقی کی بجائے انھیں متاثر کیا ہے۔ وہ ضلعی و صوبائی حکومت سے ان کی جلد امداد کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر انھیں انصاف نہیں ملا تو احتجاج کریں گے۔

 



اس سلسلے میں کہ سی پیک شاہراہ کی تعمیرات پر بھاری مشینریز کی استعمال سے کتنے گھروں کو نقصان ہوا ہے اور ان کو کتنی امداد دی جائے گی؟ یہ جاننے کے لیے پروجکٹ ڈائریکٹر ایسٹ بے ایکسپریس وے امداد بزنجو سے رابطہ کیا گیا تو امداد بزنجو نے کہا کہ یہ معلومات ضلعی انتظامیہ کے پاس ہیں۔

ڈپٹی کمشنر گوادر کے دفتر سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق سی پیک شاہراہ کے متاثرین کے لیے 5 کروڑ 33 لاکھ تیس ہزار روپے کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ اس رقم میں سے 5 کروڑ 12 لاکھ 95ہزار روپے 23 نومبر تک تقسیم کیے جاچکے ہیں۔ ڈی سی آفس کے فرہم کردہ معلومات کے مطابق سروے سے 5 کروڑ 27 لاکھ 97ہزار روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

تاہم متاثرین اس سروے اور امدادی رقوم کی تقسیم کو منصفانہ نہیں سمجھتے۔ متاثرین ضلعی انتظامیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنر خود متاثرین کا جائزہ لیں اور دیکھ لیں کہ اس سروے میں کس قدر جانب داری اور امدادی رقوم کی تقسیم میں من پسند لوگوں کو امداد دی گئی ہے جبکہ اصل حقدار اس سے محروم ہیں۔
مزیدخبریں