جہاں تک مشرقی پاکستان کے دفاع کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں کوئی پلاننگ نہیں کی گئی جس کی ضرورت تھی انگریزی کی ایک ضرب المثل جی ایچ کیو اور پاکستانی عسکری قیادت میں مشہور تھی۔
"The Battle for East Pakistan will be Fought in the Planes of West Pakistan"
آرمی کی آپریشنل تھنکنگ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ مشرقی پاکستان میں چونکہ دریاؤں اور ندی نالوں کی کثرت ہے لہذا وہاں کوئی بڑا ملٹری آپریشن کامیاب ہونا آسان نہیں اس خیال کے تحت مشرقی پاکستان کے ڈیفنس کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں جو ابتدائی اختلافات اور اعتراضات سامنے آئے ان میں ایک معاملہ یہ بھی تھا کہ قیام پاکستان کے بعد صرف پٹسن پاکستان سے برآمد کی جانے والی واحد چیز تھی اسی لیے ہمیشہ کی پاکستانیوں کا مشرقی پاکستانیوں کا اعتراض تھا کہ اس ملک کا سارا زرمبادلہ ہماری وجہ سے ہے مگر اس کو مغربی پاکستان میں خرچ کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی قیادت اور عوام یہ کہتے تھے کہ ہمیں اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالمجید ملک جو کہ جی ایچ کیو میں ڈیموں کی پوزیشن پر بھی فائز رہے اپنی کتاب 'ہم بھی وہاں موجود تھے' میں لکھتے ہیں کہ
"الیکشن سے قبل اگرچہ مشرقی پاکستان کے حالات دگرگوں ہوگئے تھے اور مبصرین کے انداز ہی تھے کہ عوامی لیگ جیتے گی، امکان یہی کیا جا رہا تھا کہ اس کی برتری معمولی ہوگی مگر نتائج اس کے برعکس نکلے آئی ایس آئی سمیت تمام ایجنسیوں کے اندازے غلط ثابت ہوئے مبصرین ششدر رہ گئے اور مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کر دیا۔"
ان انتخابات میں ملک بھر کی 24 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا جب نتائج سامنے آئے تو یہ بلاشبہ انتہائی حیرت انگیز قومی اسمبلی کی 300 نشستوں میں سے مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے 160 نشستیں اور مغربی پاکستان سے پاکستان پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں حاصل کیں حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو 151 نشستوں کی ضرورت تھی منتخب اراکین اسمبلی کی یہ تعداد صرف عوامی لیگ کے ہی پاس تھی۔
انتخابات کے بعد حالات کی خرابی پر ذوالفقارعلی بھٹو کا کردار بھی مرکزی ہے، جب یحییٰ خان ڈھاکہ میں مجیب الرحمٰن کے ساتھ بات چیت کے لیے گئے تو بھٹو بھی ساتھ تھے۔ کافی طویل بحث کے بعد یہ طے پایا کہ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ڈھاکہ میں ہوگا اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو کھل کر سامنے آ گئے اور اس نے ڈھاکہ میں اسمبلی کے اجلاس کی سخت مخالفت کی اور ڈھاکہ اجلاس میں شرکت سے انکار کر کے اپنا تاریخی نعرہ لگا دیا "ادھر تم ادھر ہم"۔ بھٹو صاحب نے تو یہاں تک فرما دیا کہ جو ممبر اسمبلی مغربی پاکستان سے اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈھاکہ جائے گا ہم اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے ۔
ان حالات کے پیش نظر ہندوستان نے بھی اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا اور مکتی باہنی جیسی تنظیم کو ہوا دی، اس نے اپنی کارروائی میں تیزی سے شروع کر دی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت وہاں کے گورنر ایڈمرل احسن تھے اور آرمی کے کمانڈر جنرل یعقوب خان (بعد میں وزیر خارجہ) تھے۔ ایڈمرل احسن نے بھرپور کوشش کی کہ مجیب سے سمجھوتہ طے پا جائے مگر انہی دنوں یعقوب خان نے اپنا استعفیٰ لکھ کر بھیج دیا، جسے یحییٰ خان نے منظور کرلیا گیا۔ ان کے استعفے کے بارے میں دو باتیں کہی جاتی تھیں ایک یہ کہ انہوں نے یحییٰ خان کو کہا تھا کہ بنگالیوں کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے ان کے خلاف ملٹری ایکشن نہ کیا جائے اور دوسرا یہ کہ یعقوب خان نے خیالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے صورتحال سے کنارہ کشی اختیار کی۔
حالات نے یہ ثابت کیا کہ جنرل نیازی جو اپنے آپ کو ٹائیگر نیازی کہلواتا تھا حالات کو قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوا، گورنر ٹکا خان نے ملٹری طریقے سے صورتحال کو قابو کرنے کی کوشش کی جس کے نتائج بھی منفی نکلے، جنرل نیازی کے خلاف کئی ایک اخلاقی اعتراضات بھی تھے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالمجید ملک کہتے ہیں کہ
"جب مارچ 1971 میں تمام مذاکرات اور بات چیت میں ناکامی کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ مجیب الرحمان کو گرفتار کرلیا جائے اور مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن شروع کیا جائے تو میں اس رات ڈی ایم او کی حیثیت سے ڈھاکہ کا دورہ کر رہا تھا، پاک فوج کی طرف سے بنگالیوں کے خلاف روا رکھے گئے جن حالات اور مظالم کا کتابوں میں تذکرہ ملتا ہے ان میں کچھ سچائی ضرور ہے۔ میں نے چند مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے "میں نے ہیلی کاپٹر سے دیکھا کہ کئی بستیاں جل رہی ہیں اور فوجی دستے آگے بڑھ رہے ہیں اور پھر یہ بھی دیکھا کہ جب شام کو فوجی افسران مل کر بیٹھتے تو آپ نے ان اقدامات پر کس طرح فخر محسوس کرتے۔"
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالمجید ملک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ٹکا خان اور نیازی کے بارے میں عوامی رائے بہت ہی منفی تھی ان کے بارے میں لوگ "ٹوکا خان" اور "ہلاکو خان" جیسے القاب استعمال کرتے تھے۔
جنرل یحییٰ خان چونکہ اس وقت صدر پاکستان اور آرمی چیف دونوں عہدوں پر براجمان تھے تو ان کے بارے میں افواج میں یہ رائے تھی کہ یحیی خان کی شخصیت اس طرح تھی کہ وہ کھلے دل کے اعتماد کرنے والے شخص تھے مگر ان کے بارے میں یہ بات سب پر عیاں نہیں کہ ان کی شامیں بڑی رنگین ہوتی تھی اکثر شباب و کباب کی محفل سجتیں تھیں۔ اقلیم اختر عرف رانی جیسے معروف کردار ان تمام محفلوں میں نمایاں تھے اور ان کا ذاتی کردار کسی طور بھی قابل تحسین نہیں تھا۔ اس قسم کی سرگرمیوں اور کثرت مے نوشی نے یحیی خان کو آرمی آپریشنل پلاننگ سے دور رکھا۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالمجید ملک جن کا نام آرمی چیف کے نام کے لئے بھی گردش کرتا رہا اپنی کتاب میں ایک جگہ اس بات کا تذکرہ بھی کرتے ہیں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو یو این او میں پولینڈ کی قرارداد کو مان لیتے تو مشرقی پاکستان کی حیثیت ضرور تبدیل ہوتی ہے مگر سقوط ڈھاکہ جیسا معاملہ نہ ہوتا وہ لکھتے ہیں کہ "آخر کار 15 دسمبر کو قرارداد نمبر307 پولینڈ نے پیش کی جس میں مشرقی پاکستان کی موجودہ حیثیت کو تبدیل کرنے کی تجویز بھی شامل تھی اس قرارداد کو "پولش ریزولیشن" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس موقع پر بھٹو نے دھواں دھار تقریر کی، ذوالفقار علی بھٹو نے ساری سکیورٹی کونسل کی موجودگی میں اس قرارداد کو پھاڑ دیا اور کہا کہ اگر آپ ہندوستان کو جارح نہیں مانتے تو میرے یا ہونے کا کوئی فائدہ نہیں یہ کہہ کر بھٹو سکیورٹی کونسل سے واک آؤٹ کر چلے آئے اگر یہ قرارداد منظور ہوجاتی تو مشرقی پاکستان کی حیثیت تو یکسر بدل جاتی مگر سقوط ڈھاکہ اور فوج کے ہتھیار ڈالنے کی ہزیمت جیسے سانحات سے پاکستانی قوم بچ جاتی۔"
16 دسمبر 1971 جغرافیائی اور تاریخی لحاظ سے پاکستان کا سیاہ ترین دن ہے کیونکہ وہی دن تھا کہ جب ڈھاکہ میں 90 ہزار پاکستانی ہندوستان کی قید میں گئے جن میں تقریباً 55 ہزار فوجی تھے،جنھوں نے شرمناک طریقے سے ہتھیار ڈالے۔ چکوال شہر سے تعلق رکھنے والے ایک جسٹس قاضی محمد گل جو حمود الرحمان کمیشن کے ممبر بھی رہے اور بعد میں چیف الیکشن کمشنر آزاد کشمیر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں، انہوں نے ایک دفعہ ایک ذاتی گفتگو کے دوران کہا کہ حمود الرحمان کمیشن میں جنرل آغا محمد یحییٰ خان سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ آپ نے 16 دسمبر 1971 کو سیز فائر کا حکم کیوں دیا تھا تو جواب نہیں آیا نے بہت ساری وجوہات کا ذکر کیا جن میں ایک یہ بھی ٹھیک ہے پاکستانی آرمی کے اکثر جرنیل سیز فائر کے حق میں تھے۔
دسمبر میں لگی اس چوٹ کو نظر انداز تو کیا جا سکتا ہے جیسے کہ ہم لوگ بحیثیت پاکستانی پچھلے 50 سال سے اس حقیقت سے منہ چھپاتے آ رہے ہیں مگر بھلایا نہیں جا سکتا۔