شیخ مجیب الرحمٰن مغربی پاکستان کے اس دورے پر عوامی لیگ مغربی پاکستان کے نائب صدر قاضی فیض محمد کی دعوت پر نوابشاہ بھی گئے تھے جہاں کے ریلوے سٹیشن پر سندھ کے نوجوانوں نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا۔ شیخ مجیب کے حیدرآباد ریلوے سٹیشن پر استقبال کے دوران ان کے بنگالی نوجوان حامیوں کی طرف سے لگائے جانے والے نعروں نے پہلی بار سندھی قوم پرست نوجوانوں کے کانوں کو بھی متوجہ کیا تھا اور وہ بنگالی میں نعرے تھے ”تمہار، ہمار نیتا شیخ مجیب شیخ مجیب‘ ہمار دیش تمار دیش بنگلہ دیش بنگلہ دیش“ (تیرا لیڈر میرا لیڈر شیخ مجیب شیخ مجیب، تیرا دیش میرا دیش بنگلہ دیش بنگلہ دیش)۔ کسے خبر تھی کہ صرف چار سال بعد سندھی قوم پرست جی ایم سید کے پیروکار بھی اسی طرز کے نعرے بلند کریں گے۔ کئی سندھی قوم پرستوں کے بیٹوں کے نام مجیب الرحمٰن ہوں گے۔ ”تہنجو رہبر مہنجو رہبر جی ایم سید جی ایم سید، تہنجو دیش مہنجو دیش، سندھو دیش سندھو دیش“ جو آج تک انتخابات میں نہیں پاکستان سے علیحدگی پریقین رکھنے والے قوم پرستوں اور سید کے پیروکاروں کے نہایت ہی پرجوش نعرے بنے ہوئے ہیں۔
جی ایم سید اس کے ایک سال کے اندر 1970 کے انتخابات میں اپنے آبائی حلقے کوٹری دادو سے پی پی پی کے امیداوار اور علاقے کے طاقتور سردار ملک سکندر کے خلاف سندھ متحدہ محاذ کے پلیٹ فارم سے انتخابات لڑے تھے۔ ٹیلی وژن پر باقی پارٹیوں کے رہنماؤں کی طرح اپنا پروگرام پیش کرنے وہ بھی آئے تھے۔ لیکن ضمانت ضبط کرا کر انتخابات ہار گئے۔ بہرحال 1970 کے انتخابات میں اپنی ہار اور اس وقت کے مشرقی پاکستان میں باوجود سب سے بڑی اکثریتی پارٹی کی حیثیت میں جیت کر آنے کے جو کچھ شیخ مجیب الرحمٰن، ان کی پارٹی اور مشرقی بنگال کے ساتھ کیا گیا اس کو دیکھ کر ہی سید نے پاکستان کے وفاقی ڈھانچے میں سیاست سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے سندھو دیش کا نعرہ بلند کیا تھا۔
سید کے نعرے اور سیاست کا ذکر تو برسبیل تذکرہ ہوا لیکن شیخ مجیب الرحمٰن کا اکثریتی مینڈیٹ ماننے کے بجائے جب اپنے سینہ چاکان مشرق بھائیوں بہنوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف مغربی پاکستان کے ضمیر کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ کیا عوام، کیا خواص، سب ان کی حمایت تو کیا کرتے، الٹا یحییٰ خان کے ساتھ ہو لیے تھے۔ لیکن چند چاک گریبان دیوانے اس صحرا میں صدا رکھتے تھے۔ اصل میں ایسے کئی لوگ تھے۔ معروف و گمنام۔ گذشتہ ہفتے ان دیوانوں اور اپنے پاکستانی دوستوں کو (جن میں سے اب کئی نہیں رہے) کے ورثا کی معرفت بنگلہ دیش کی حکومت نے ان کی جدوجہد و حمایت کے اعتراف میں اعزازات دیے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ عظیم شاعر اور انسان فیض احمد فیض کو بھی یہ اعزاز کس وجہ سے دیا گیا۔ فیض صاحب نے تو اس تاریخ کے سب سے بڑے بغداد پر خاموشی اختیار کیے رکھی تھی۔ اگر بولے بھی تو بنگلہ دیش کی جدوجہد کے خلاف ہی بولے تھے۔ وہ تو غلط یا برابر، تب کے سوویت یونین کی طرف سے فوجی ایکشن کے خلاف عوامی لیگ کی مدد کرنے پر اپنا لینن پرائز بھی واپس کرنے لگے تھے۔ فیض صاحب زیادہ تر بقول شیخ ایاز ریڈیو پاکستان کی طرف سے منعقد ہونے والے غالب کے دربارعام کے مشاعروں کی صدارت ہی فرماتے رہے تھے۔ ہو سکتا ہے ان کو یہ اعزاز ان کی اس نظم پر ملا ہو ”ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد“ جس کے ایک مصرعے میں فیض صاحب نے بنگلہ دیش کے قتل عام کو محض ”خون کے دھبوں“ سے تشبیہ دی ہے کہ ”خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد“۔ کئی برس ہوئے جب میں نے فیض صاحب کا یہ مصرعہ ایک بنگلہ دیشی صحافی کو سنایا تو اس نے کہا تھا ”حسن صاحب یہ دھبے کبھی نہیں دھلیں گے“، شاید ہمارے آنسوؤں سے دھل جائیں ایک دن۔ آؤ کہ دیوار گریہ بنائیں۔ برطانیہ نے بھارت سے جلیانوالہ باغ کی معافی مانگ لی، آپ بھی اپنے بھائیوں بہنوں سے سابق مشرقی پاکستان میں زیادتیوں پر معافی مانگ لیں۔
یہ کہنا ایک اور زیادتی ہے کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں تھا اور اگر میڈیا آزاد ہوتا تو بنگلہ دیش میں اتنی زیادتیاں نہیں ہوتیں۔ بلوچستان میں کئی زیادتیاں بلوچوں کے ساتھ، بنگالیوں کی ساتھ ہونے والی زیادتیوں جیسی ہی ہیں تو آزاد میڈیا نے کرنے والوں کا کیا کر لیا ہے؟ اس وقت اگرچہ میڈیا آزاد نہیں تھا، تب بھی مظہر علی خان اور اختر حمید جیسے لوگوں نے بنگالیوں پر ہونے والی زیادتیوں پر اپنے اخبارات میں لکھا تھا، اختر حمید تو جیل بھی گئے تھے۔
شاید پنجاب سے پہلی دو گرفتاریاں مشرقی فوجی ایکشن کے خلاف احمد سلیم اور حبیب جالب کی ہوئی تھیں۔ کسے خبر ہے کہ پنجابی ادب اور زبان کو دنیا بھر میں متعارف کرانے والے یہ خاموش خدمت گار اور ہم عصر سیاسی و ادبی تحریکوں کی یہ جیتی جاگتی تاریخ احمد سلیم آج کل زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، مگر وہ قوم جو پہلا ظلم اپنی ماں بولی پر ہی کرتی ہو، اس کو اتنا وقت کہاں؟ یہ خود دار گمنام سپاہی حکومتوں سے اپنی زندگی کا دان مانگا کرے۔
مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کی مخالفت کرنے والے دیگر لوگ سید آصف شاہکار، شاید منظور اعجاز، باسط میر بھی تھے، طاہرہ مظہر علی خان، ملک جیلانی، ماسٹر خان گل، لائلپور کے بھٹہ صاحب بھی تھے۔ سندھ کے جیکب آباد شہر سے تب 17 سالہ نوجوان زاہد مخدوم، غالب لطیف، لطیف مہر، فتاح عابد لاشاری، کنہیا لال بھی تھے جنہوں نے ہاتھ سے پمفلٹ لکھ کر سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے خلاف بانٹے تھے۔ یہ لوگ دھر لیے گئے اور انہیں فوجی عدالت سے سزائیں ہوئیں۔
سندھی کے سب سے بڑے شاعر شیخ ایاز جو سینیئر وکیل تھے، سکھر بار اسوسی ایشن سے مشرقی بنگال میں فوجی ایکشن کے خلاف قرارداد منظور کرانے کی کوشش پر گرفتار کیے گئے۔ آج کے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل فتاح ملک جو کہ سندھی کے معروف شاعر بھی ہیں، رشید بھٹی اور تنویر عباسی بھی فوجی ایکشن کی مخالفت میں تھے۔
بائیں بازو کے اس وقت کے طالب علم رہنما جام ساقی نے اپنی سندھ نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن یا سندھ این ایس ایف کے نوجوانوں اور مزدوروں کے ساتھ حیدر آباد سے ایک احتجاجی جلوس نکلوایا تھا۔ بلوچ قومی شاعر میر گل خان نصیر اور بابائے استمان کہلانے والے میر غوث بخش بزنجو بھی فوجی ایکشن کی مخالفت پر صعوبتیں برداشت کرنے والوں میں سے تھے۔ سندھی شاعر اور صحافی انور پیرزادو جو اس وقت پاکستان فضائیہ میں پائلٹ افسر تھے نے اپنے ایک پرانے ساتھی لیکچرر کو سندھ یونیورسٹی میں خط لکھا تھا جس میں مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن میں بنگالیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی مذمت کی تھی۔ وہ خط سنسر ہو کر پکڑا گیا، انور پیرزادو کا کورٹ مارشل ہوا، انہیں سات سال سزا ہوئی۔ اب انور پیرزادو، پروفیسر وارث میر، احمد سلیم، حبیب جالب، فیض احمد فیض، غوث بخش بزنجو ، ملک جیلانی اور قاضی فیض محمد کو ان کی مظلوم بنگالیوں کی حمایت کے اعتراف کے طور پر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے ہاتھوں اعزازات دیے گئے جو ان کی اولادوں نے وصول کیے ہیں۔
قاضی فیض محمد بنگلہ دیش بننے کے بعد دلبرداشتہ ہو گئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے آنے پر وہ جب عمرہ کرنے اپنی اہلیہ کے ہمراہ جہاز پر سوار ہو رہے تھے تو انہیں جہاز سے اتار دیا گیا تھا۔ بعد میں وہ سرحد پار کر کر بھارت، پھر لندن اور بنگلہ دیش پہنچے تھے۔ جب وہ جلاوطنی سے واپس آئے تو انہیں نظربند کیا گیا۔ ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں اپنا ایلچی بنا کر شیخ مجیب الرحمٰن کے پاس بھیجا تھا۔ قاضی فیض محمد بتایا کرتے تھے کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے ان سے کہا تھا ”قاضی صاحب! بھٹو صاحب سے جا کر کہنا کہ تمہارے اور میرے جنرل دونوں کاکول کے تربیت یافتہ ہیں، وہ نہ تمہیں چھوڑیں گے نہ مجھے“۔