غیر جانبدارانہ نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو دونوں ممالک سچ بولتے ہیں کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی کر کے ایک دوسرے کے لیے سکیورٹی کی صورت حال پیدا کرتے رہتے ہیں۔ ہر ریاست کے پاس اس کے فیصلوں کی کوئی نہ کوئی منطقی وجہ ہوتی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں افغانستان مسلسل پاکستان کے لیے ایک سکیورٹی تھریٹ بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کی کمزور اور غیر پائیدار افغان پالیسی ہے جس کی وجہ سے پاکستان اپنے مغربی بارڈر کی جانب سے کبھی مطمئن نہیں ہو سکا۔
افغانستان روس جیسی بڑی عالمی طاقت اور توانائی سے بھرپور ایشیائے کوچک کی ریاستوں کے ہمسایہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے بیرونی طاقتوں کے حملوں اور سازشوں کا شکار رہا ہے۔ افغانستان میں ان بیرونی شورشوں کے اثرات پاکستان پہ بھی پڑتے رہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے لازم تھا کہ اپنی سکیورٹی اور امن کے لیے افغانستان کے معاملات سے باخبر رہنے کے ساتھ ساتھ مناسب حکمت عملی اختیار کرے۔ سوویت روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہو گیا کیونکہ روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین اور جنگجو اقتدار کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے لگے۔ پاکستان نے اس خانہ جنگی میں مجاہدین کے ایک گروپ کی حمایت کی جو طالبان کے نام سے جانے گئے۔ تب سے ہی طالبان پاکستان کی پراکسی ہونے کے ساتھ ساتھ ذمہ داری بھی بن گئے۔
امریکہ نے 11/9 کے بعد دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے سلسلے میں افغانستان پر حملے کا منصوبہ بنایا تو امریکہ کے تھنک ٹینکس نے پاکستان سے حمایت کے لیے کہا۔ پاکستان کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ تھا کیونکہ کافی مدت کے بعد افغانستان کی سیاسی صورت حال پاکستان کے لیے موزوں تھی کیونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی جن کو پاکستان کی سیاسی، معاشی اور اخلاقی مدد حاصل تھی۔ پاکستان کو با دل نخواستہ امریکہ کی حمایت کرنا پڑی۔ امریکہ کم و بیش 20 سال تک افغانستان کی خاک چھانتا رہا۔ اس جنگ میں پاکستان کو امریکی مفادات سے زیادہ امریکہ کے جانے کے بعد کے افغانستان کی فکر تھی۔ اس لیے پاکستان کو اپنی پراکسی طالبان کو کسی نہ کسی طرح سے مکمل طور پر تباہ اور غیر فعال ہونے سے بچانا تھا۔ اس دوران امریکہ اور پاکستان کے تعلقات خراب بھی ہوئے مگر پاکستان کی سکیورٹی کے لیے ناگزیر تھا کہ پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔
امریکہ کا ساتھ دینے اوراس کو فوجی اڈے دینے کی وجہ سے طالبان میں پاکستان کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے 2007 کے آخر میں طالبان کا ایک گروہ پاکستان مخالف سرگرمیوں کا حصہ بن گیا جو تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے نام سے مشہور ہوا۔ اس گروپ نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کا ایک خطرناک سلسلہ شروع کر دیا جس کی لپیٹ میں پاکستان کے تمام عسکری و سویلین ادارے اور افراد آئے۔ پاکستان کی سکیورٹی کے لیے یہ بدترین دور تھا۔ پاکستان کی فوج نے اس دہشت گرد گروپ کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کیے جس کی بدولت کچھ حد تک امن قائم ہوا۔
امریکہ نے 2018 میں افغانستان سے فوجی انخلا کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نازک مرحلہ تھا کیونکہ امریکہ کی وجہ سے طاقت کا توازن کافی حد تک برقرار تھا مگر امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان میں 90 کی دہائی والی خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہو سکتی تھی جس سے پاکستان کی سکیورٹی براہ راست متاثر ہو سکتی تھی۔ پاکستان کی ایک بڑی سفارتی اور فوجی کامیابی تھی کہ پاکستان نے امریکہ کو اس بات پر راضی کر لیا کہ امریکی انخلا کے بعد اقتدار کی منتقلی کا معاملہ پہلے ہی طے کیا جائے۔ بظاہر امریکہ بھی عالمی تذلیل اور خفت سے بچنے کے لیے ایسا نہیں چاہتا تھا کہ افغانستان میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد والی صورت حال پھر سے پیدا ہو۔ لہٰذا امریکہ نے پاکستان کی وساطت سے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے جو کامیاب ہوئے اور امریکہ اور طالبان کے مابین حکومت سازی کے معاملات طے پا گئے۔
پاکستان، امریکہ اور طالبان تینوں فریقوں کے لیے یہ win-win صورت حال تھی کیونکہ امریکہ افغانستان سے محفوظ انخلا چاہتا تھا، طالبان افغانستان کی حکومت چاہتے تھے اور پاکستان افغانستان میں اپنی پسند کی حکومت چاہتا تھا۔ مگر یہیں پاکستان کے سکیورٹی کے اداروں سے ایک مس کیلکولیشن ہو گئی۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ افغانستان میں طالبان کے آنے کی وجہ سے سب اچھا ہو جائے گا۔ پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلیشمنٹ کو لگتا تھا کہ طالبان اقتدار میں آنے کے بعدTTP کو بھی کنٹرول کر لیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا۔
امریکی انخلا کے بعد پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے جو مثبت نتائج لانے میں قاصر رہے۔ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کی نوعیت اور مقاصد پر ایک واضح اختلاف رائے دیکھنے میں آیا۔ حزب اختلاف کی جماعتیں ٹی ٹی پی کو کوئی رعایت دینے کے حق میں نہیں تھیں جبکہ حکمران جماعت کی کابینہ ملٹری اداروں کے ساتھ مل کر 'اچھے اور برے طالبان' کے چنگل میں پھنس کر رہ گئی۔ حکومت کے بعض وزرا کے اوپر ٹی ٹی پی کے ساتھ روابط رکھنے اور ان کے حمایتی ہونے کے الزامات بھی لگے۔ پاکستان کی افواج نے ملٹری آپریشن کے ذریعے سے جو کامیابی حاصل کی تھی اس کو ٹی ٹی پی کے سامنے کمزور اور معذرت خواہانہ رویے کی وجہ سے ضائع کر دیا گیا۔
موجودہ اتحادی حکومت نے بھی اقتدار میں آ کر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سلسلے میں ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی جو ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے دوران ملٹری اداروں کے معاون کے طور پر کام کرے گی۔ 22 جون 2022 کو وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی ایک میٹنگ میں ملٹری لیڈرشپ نے سیاسی لیڈرشپ کو یقین دہانی کروائی کہ ٹی ٹی پی کو کوئی بھی غیر آئینی رعایت نہیں دی جائے گی اور کالعدم تحریک کے ساتھ کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اس کے برعکس بہت سارے اراکین پارلیمنٹ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے اصول و ضوابط اور ان کی پیش رفت سے آگاہ ہی نہیں تھے۔
یہ بات حتمی ہے کہ پاکستان کے سکیورٹی کے اداروں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں ہمیشہ کی طرح سیاسی لیڈرشپ کو دور رکھا جس کی وجہ سے مذاکرات نہ تو پوری طرح کامیاب ہو سکے اور نہ ہی ٹی ٹی پی کی دہشت گردی رک سکی۔ موجودہ حالات ایک دفعہ پھر سے وزیرستان سے لے کر سوات تک ٹی ٹی پی سویلین اور حکومتی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہی ہے جس سے علاقے میں پھر سے خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ٹی ٹی پی والے پہلے سے زیادہ پرتشدد کارروائیوں پر مطمئن اور دلیر نظر آتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کا پھرسے پاکستان کی سکیورٹی کو اس طرح سے تھریٹ کرنا پاکستان اور اس کے سکیورٹی اداروں کے لیے تشوش ناک امر ہے۔
ٹی ٹی پی کی پاکستان مخالف کارروائیوں پہ پاکستان کے عسکری و سویلین اداروں کو کوئی شبہ نہیں ہے تو پھر کیوں ان کے خلاف مؤثر اقدامات نہیں اٹھائے گئے؟ یوں دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے ساتھ مستقل حل کے بجائے ایڈہاک بنیادوں پرعارضی اور وقتی حل کی کوشش میں لگا رہا ہے جس کی وجہ سے مسلح گروپ پھر سے دہشت گردی پہ اتر آیا ہے۔ پاکستان نے ماضی میں بھی ایسی ایڈہاک اور کمزور پالیسی کے ساتھ بہت نقصان اٹھائے ہیں اور اب پہلے سے اقتصادی اور سیاسی ابتری کا شکار ملک دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بننے کی سکت نہیں رکھتا۔ ٹی ٹی پی کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ جس کو نظر انداز کیا جا سکے اس لیے ہنگامی بنیادوں پر عسکری اور سیاسی حلقوں کو قومی سلامتی کے اس حساس معاملے پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔