جنرل صاحب کو یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا تاکہ وہ غیر سیاسی اور ملکی سلامتی کے حساس اور اہم اداروں کو سیاسی اکھاڑا نہ بناتے۔ پاکستان کے کافی سیاستدان تو اکثر فوجی افسران کو مشورہ دے چکے ہیں کہ اگر آپ کو سیاست کا شوق ہے تو باقاعدہ سیاست میں آ کر اپنا شوق پورا کر لیں۔ اگر جنرل صاحب سیاست میں آتے ہیں تو ان کا مستقبل کیا ہو گا قبل از وقت ہے مگر اس بات پر مہر ثبت ہو جائے گی کہ انہوں نے دوران ملازمت پاکستان کی سیاست میں جو طوفان بد تمیزی برپا کر رکھا تھا کہ وہ ملک کی بہتری کے لئے نہیں بلکہ ان کے اپنا ذاتی سیاسی ایڈونچر تھا جس کی قیمت پاکستان کے سیاسی اور عسکری اداروں کو بھی چکانی پڑی۔
'نیا دور میڈیا' نے فیض حمید کی سیاست میں انٹری کے حوالے سے خبر دینے میں سبقت حاصلی کی تھی۔ 12 دسمبر 2022 کو سینیئرصحافی مزمل سہروردی نے نیا دور کے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں انکشاف کیا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید اب سیاست میں انٹری دینے لگے ہیں۔
مزمل سہروردی نے لکھا تھا کہ "کیا لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید خود سیاست میں آئیں گے؟ ان کے قریبی حلقے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ وہ خود سیاست میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن وہ اپنی سیاست کو صرف ممبر پارلیمان بننے تک محدود نہیں رکھنا چاہتے۔ وہ اپنا سیاسی کریئر اس سے زیادہ اور اس سے آگے دیکھ رہے ہیں۔ فیض حمید تحریک انصاف میں بہت مقبول ہیں۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا میں وہ بہت مقبول ہیں۔ تحریک انصاف کا ہر نوجوان ان سے برملا محبت کا اظہار کرتا ہے۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف میں لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے لئے ایک پسندیدگی موجود ہے۔ ویسے بھی تحریک انصاف کو بنانے اور اس کو اقتدار تک پہنچانے میں فیض حمید کا ایک کردار ہے۔ جس کو تحریک انصاف کا عام ووٹر بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے"۔
مزمل سہروردی نے اپنے کالم میں یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ تحریک انصاف میں اس بات کی بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ عمران خان کی ان کے اوپر چل رہے کیسز میں نااہلی کی سزا کی صورت میں فیض حمید تحریک انصاف کے اگلے چیئرمین ہو سکتے ہیں۔
اس بارے میں مزمل سہروردی نے لکھا تھا کہ "ان (فیض حمید) کے قریبی ذرائع کے مطابق عمران خان کی نااہلی کے بعد فیض حمید خود کو تحریک انصاف کی متبادل قیادت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ شاہ محمود قریشی، اسد عمر، پرویز خٹک سمیت تحریک انصاف کی قیادت پی ٹی آئی کے عام ووٹر میں کوئی مقبولیت نہیں رکھتی۔ ان کی کوئی قبولیت نہیں۔ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کے عام ووٹر اور نوجوانوں میں فیض حمید کی مقبولیت اور قبولیت زیادہ ہے۔ اس لئے عمران خان کی نا اہلی کے بعد فیض حمید متبادل کے طور پر سامنے آنے کا ارداہ رکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ ایک بھر پور سیاسی اننگز کھیل سکتے ہیں۔ وہ ابھی ساٹھ سال کے بھی نہیں ہوئے۔ اس لئے ایک بھر پور سیاسی اننگز کے لئے ان کے پاس بہت وقت ہے۔ وہ تحریک انصاف میں ایک متبادل قیادت کے طور پر سامنے آنے کا ارادہ رکھتے ہیں"۔
فیض حمید کا ملکی سیاست میں آنا بہت سارے حوالوں سے خوش آئند ہو گا۔ جنرل صاحب کو کھل کر سیاست کے ذریعے ملک اور قوم کی خدمت کرنے کا موقع ملے گا جس کی ان کو آرمی چیف نہ بننے کی وجہ سے سعادت حاصل نہ ہو سکی۔ پاکستان تحریک انصاف ان کے ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے برطرفی کے بعد پدرانہ چھاؤں سے محروم ہو کر اپنی سیاسی جستجو میں امپائر کی انگلی کی تلاش میں سرگرداں ہے، فیض حمید کے سیاست میں آنے سے تحریک انصاف کی اس محرومی کا بھی ازالہ ہو جائے گا۔
فیض حمید کے سیاست میں آنے سے ان کو اپنی ملٹری سروس کے دوران اپنے غیر آئینی کردار جیسے گناہوں کے کفارے کا موقع بھی ملے گا۔ سیاست میں آنا خود کو بے نقاب کرنے اور اپنے آپ کو عوام کی عدالت میں پیش کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں کو اب کھل کر موقع ملے گا کہ وہ فیض حمید کا احتساب کر سکیں۔ ان کا ملٹری سروس کے دوران متنازع کردار ان کی سیاسی زندگی میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا اور ان کے سیاسی مخالف ان کو بار بار یہ یاد کرواتے رہیں گے۔
فیض حمید کو اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہو گا کہ اب وہ سادہ فیض حمید ہیں ان کے پاس اب پاک فوج کا اعلیٰ عہدہ نہیں ہے جس کی آڑ میں چھپ کر وہ سیاسی معجزات دکھاتے تھے۔ طاقتور ادارے کا عہدیدار بن کر سیاسی داؤ پیچ لگانا اور عوامی سیاست کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ان کے لئے زیادہ مناسب ہوتا کہ اپنے سابق چیف باجوہ صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گمنامی کی زندگی میں چلے جاتے اور عوامی سیاست میں مزید بے نقاب ہونے والا خطرہ مول نہ لیتے۔
فیض حمید کے تحریک انصاف میں ممکنہ شمولیت کے بعد کی صورتحال بھی بڑی دلچسپ ہو گی۔ تحریک انصاف کی موجودہ سیاست انٹی اسٹیبلشمنٹ اور فوج کے غیر سیاسی کردار کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ کیا تحریک انصاف کا ووٹرایک سابق جنرل کو قبول کر لے گا اور اگر فیض حمید عمران خان کی جگہ پارٹی کے چیئرمین بنتے ہیں تو کیا تحریک انصاف کے رہنما اور حمایتی اس نئی حقیقت کو مان لیں گے؟ ماضی کا تجربہ جہاں یہ بتاتا ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹر خان کے سوا کسی کو نہیں مانتا، وہاں یہ بھی بتاتا ہے کہ خان کی تائید حاصل ہو جائے تو یہ گدھے کو باپ بنانے میں بھی دیر نہیں کرتے۔