سنگین الزامات کے نتائج بھی سنگین ہوں گے: چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سہولت کاروں کو فریق بنا رہے ہیں۔ اصل بنیفشری تو کوئی اور ہے۔ آپ نے درخواست میں اصل بنیفشری کا ذکر ہی نہیں کیا۔ آپ نے لوگوں کی پیٹھ پیچھےالزامات لگائے ۔ جن پر الزامات لگائے گئے وہ کسی اور کیلئے سہولت کاری کر رہے تھے۔ سہولت کاری کرکے کسی کو تو فائدہ پہنچایا گیا۔

12:51 PM, 15 Dec, 2023

نیا دور

چیف جسٹس آف پاکستان نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے، ان کے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔

سپریم کورٹ میں سابق جج شوکت عزیز صدیقی کیس کی سماعت   چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم 5 رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے۔ جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت بھی بنچ میں شامل ہیں۔ شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان عدالت میں  پیش ہوئے۔

آج سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیا درست ہیں ؟ شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی کی گئی تقریر پر برطرف کیا گیا؟  کیا وہ جنرل  جن کو آپ فریق بنانا چاہتے ہیں کیا وہ خود 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے؟ کیا وہ جنرل کسی اور کے سہولتکار بننا چاہ رہے تھے ۔ 

کیا وہ جنرل جن کو آپ فریق بنانا چاہتے ہیں وہ خود 2018 کے انتخابات میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر شوکت عزیز صدیقی کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے۔ جس کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا؟ وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ میرے لگائے گئے الزامات درست ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 تین کے تحت آئے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سہولت کاروں کو فریق بنا رہے ہیں۔ اصل بنیفشری تو کوئی اور ہے۔ آپ نے درخواست میں اصل بنیفشری کا ذکر ہی نہیں کیا۔ آپ نے لوگوں کی پیٹھ پیچھےالزامات لگائے ۔ جن پر الزامات لگائے گئے وہ کسی اور کیلئے سہولت کاری کر رہے تھے۔ سہولت کاری کرکے کسی کو تو فائدہ پہنچایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پاکستان کی پاسداری نہ کرکے وہ اس جال میں خود پھنس رہے ہیں۔ سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا؟ شوکت عزیز صدیقی فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے۔ فوجی افسر کسی کو فائدہ دے رہے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی۔  چیف جسٹس نے کہا کہ ایک امیدوار کو سائیڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے۔ وکیل شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ فوج نے اپنے امیداواروں کو جیپ کا نشان دلوایا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کبھی تو ملک میں سچ کی جان جانا ہی ہے۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ ستر سال سے ملک میں یہی ہو رہا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ستر سال سے جو ہورہا ہے اس کا ازالہ نہ کریں؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فوج کو چلاتا کون ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ حکومت فرد نہیں ہے۔  جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں،جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے۔یہ آسان راستہ نہیں ہے۔ شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے انکے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔ سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے۔

وکیل بار کونسل صلاح الدین نے کہا کہ سابق جج نے اپنے تحریری جواب میں جن لوگوں کا نام لیا ہم ان کو فریق بنا رہے۔ شوکت عزیز صدیقی نے بانی پی ٹی آئی سمیت کسی اور کو فائدہ دینے کی بات نہیں کی۔ مفروضے پر ہم کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسی کا نام نہیں لے سکتے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات بھی مفروضے ہیں۔

چیف جسٹس نے بار ایسوسی ایشن کے وکیل صلاح الدین سے مکالمہ کیا کہ کیا کسی کا بھی نام لکھ دیں تو اسے نوٹس کر دیں۔ کیا شوکت صدیقی بیرسٹر صلاح الدین کا نام لکھ دیں تو آپ کو بھی نوٹس کر دیں؟ کیا ہمارے کندھے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں؟ نوٹس جاری کر کے بلاوجہ لوگوں کو تنگ بھی نہیں کرنا چاہیے۔کس سیاسی جماعت کو نکالنے کے لیے یہ سب ہوا؟

وکیل بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ جوڈیشل سسٹم پر دباو ڈال کر نواز شریف کو نکالا گیا، چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ اس سے فائدہ کس کا ہوا؟ کیا سندھ بار یا اسلام آباد بار کو فائدہ دینے کے لیے یہ ہوا؟

بیرسٹر صلاح الدین احمد نے کہا کہ ہم نے انکوائری کی درخواست کی تا کہ حقائق سامنے آئیں۔  چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر سندھ بار شوکت صدیقی کی ہمدردی میں آئی کہ ان کو پنشن مل سکے تو یہ 184 تھری کا دائرہ کار نہیں بنتا۔ ہمیں نا بتائیں کہ انکوائری کریں یا یہ کریں۔ آپ معاونت کریں جو کرنا ہے ہم کریں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مسئلہ یہ کہ عدالتی نظام کو استعمال کرنے کا الزام ہے۔ ہمارے بندے کو استعمال کر کے کیوں کہا گیا کہ نواز شریف انتخابات سے پہلے باہر نا آئے؟ وکیل صلاح الدین احمد نے کہا کہ یہ الزام فیض حمید پر ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بار کونسلز کیوں اس کیس میں آئیں؟

بیرسٹر صلاح الدین نے مؤقف اپنایا کہ ہم تحقیق چاہتے ہیں کہ کیا واقعی شوکت صدیقی کی برطرفی بانی پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم طریقے سے چلیں گے۔ شوکت صدیقی کو پنشن تو سرکار ویسے بھی دے دے گی، شوکت صدیقی 62 سال سے اوپر ہو چکے، واپس بحال تو نہیں ہو سکتے۔ سسٹم میں شفافیت لا رہے ہیں، 10 سال پرانے کیسز مقرر کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو طلب کر لیا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر مسئلہ صرف پنشن کا ہے تو سرکار سے پوچھ لیتے ہیں۔ آپ کو دے دیں گے۔ اگر پاکستان کی تاریخ درست کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں۔ ہم آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں، مقصد صرف پنشن ہے تو ٹھیک ہے وہ مل جائے گی ہم کسی کو بلانے کی زحمت کیوں دیں؟

گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے شوکت عزیز صدیقی کی اپنی برطرفی کے خلاف درخواست میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید سمیت دیگر کو فریق بنانے کے لیے ایک روز کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی تھی۔

کیس کا پس منظر 

سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو خفیہ اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔

شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی بار سے خطاب کیا تھا جس میں انہوں نے حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔

سابق جج شوکت عزیز صدیقی کو 11 اکتوبر 2018 کو عہدے سے برطرف کیا گیا جس پر انہوں نے 2018 سے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے ، شوکت عزیز صدیقی کی آئینی درخواست پر آخری سماعت 13 جون 2022 کو ہوئی تھی۔

انہوں نے اپنی درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ برطرفی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔

مزیدخبریں