الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ملک میں عام انتخابات کی تاریخ 8 فروری مقرر کی جا چکی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر سے لے کر چیف جسٹس آف پاکستان تک سب یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ انتخابات مقررہ تاریخ کو ہی ہوں گے مگر اس کے باوجود یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ 8 فروری کو 12 کروڑ 69 لاکھ 80 ہزار 2 سو 72 ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکیں گے یا نہیں۔ آخر یہ شکوک و شبہات کون پیدا کرتا ہے، اس رپورٹ میں ہم اسی پہلو کا جائزہ لیں گے۔
عامر کا تعلق صوبہ پنجاب کے ضلع بہاول پور کے علاقے مبارک پور سے ہے، وہ گذشتہ 20 سالوں سے حیدرآباد سندھ میں قاسم آباد کے علاقے میں رہائش پذیر ہیں اور حجام (ہیئر کٹنگ) کا کام کرتے ہیں۔ نسیم نگر قاسم آباد حیدرآباد میں اپنی دکان پر ایک گاہک کے بال کاٹتے ہوئے ساتھی حجام محمد وسیم سے 40 سالہ عامر نے 500 روپے کی شرط لگا رکھی ہے۔ عامر کا کہنا ہے کہ 8 فروری کو ملک میں انتخابات نہیں ہوں گے، جبکہ محمد وسیم بضد ہیں کہ انتخابات ضرور مقررہ تاریخ پر ہی ہوں گے۔
عامر کہتے ہیں کہ عمران خان کی یقینی جیت دیکھ کر ایجنسیاں نہیں چاہتیں کہ 8 فروری کو انتخابات ہوں۔ عامر کے مطابق انتخابات اگر قانون کے مطابق (ان کا اشارہ آئین کی طرف ہے) ہونے ہوتے تو اب تک ہو چکے ہوتے، وہ 90 دن والی بات بھی گزر چکی ہے۔ ان کے مطابق قانون پر عمل والی بات کی اب اہمیت نہیں رہی۔
عامر کے مطابق یہ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ اگر انتخابات اس وقت ہوئے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف انتخابات جیت جائے گی۔ جبکہ محمد وسیم کا کہنا ہے کہ اب عمران خان اور تحریک انصاف کا جیتنا اتنا آسان نہیں۔
نوجوان سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ڈاکٹر سورٹھ سندھو کے مطابق ملک میں بڑے سیاسی قائدین اور ان کی جماعتیں اقتدار میں ووٹ کے ذریعے نہیں بلکہ بیک ڈور سے آنا چاہتے ہیں۔ عوام کے ووٹ کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا، نوجوان نسل بہت مایوس ہے۔ ملک کے حالات ایسے ہیں کہ کسی کو بھی انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ نوجوان تو مایوسی کے عالم میں ملک سے بھاگ رہے ہیں۔
لکھاری اور خواتین کے حقوق کی رہنما امر سندھو کے مطابق جن سیاسی جماعتوں کو عوام کی نہیں بلکہ کسی اور سہارے کی تلاش ہوتی ہے وہ انتخابات سے بھاگتی ہیں۔ پہلے سے طے شدہ انتخابی نتائج پر یقین رکھنے والے عناصر نہیں چاہتے کہ ووٹرز اور ملکی شہریوں کا انتخابات کے عمل اور تاریخ پر یقین پختہ ہو۔ اس وجہ سے وہ انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرتے اور انہیں بڑھاوا دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انتخابات کے حوالے سے غیر یقینی ڈیزائن پراجیکٹ یا پسند کے نتائج پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ امر سندھو کے مطابق انتخابات کے عمل میں عوامی شمولیت کم کرنے کے لیے یہ افواہیں پھیلائی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ عام آدمی کی انتخابات سے دوری پیدا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام میں یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ ساری چیزیں کنٹرولڈ ہیں وغیرہ۔ انہوں نے کہا کہ اگر سب کچھ کنٹرولڈ بھی ہے اس سب کے باجود عوام کے ووٹ کی پرچی اور عوامی تحریکیں اپنا راستہ بنا لیتی ہیں۔
سابق رکن قومی اسمبلی اور رہنما پاکستان پیپلز پارٹی عبد الستار بچانی 1977 میں ہونے والے انتخابات کے نتائج میں پہلی بار ٹنڈو الہیار کے حلقے سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ انہوں نے 1977 سے 2013 تک ملک میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ 75 سالہ عبدالستار بچانی کے مطابق ریاستی ادارے انتخابی عمل کو مشکوک بنانے کے لیے حالات ایسے پیدا کرتے ہیں کہ عوام کا انتخابات کے عمل پر اعتبار نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ 1988 میں جب جنرل ضیاء الحق نے انتخابات کروانے کا اعلان کیا تو کسی نے اعتبار نہیں کیا کہ وہ انتخابات کروائیں گے۔ 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروائے گئے اور اپنی بنائی گئی اسمبلی بھی ضیاء نے توڑ ڈالی۔
عبدالستار بچانی کے مطابق کسی خاص سیاسی جماعت کو فائدہ دینے کے لیے بھی اس طرح کا ماحول بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بار بھی فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات روکنے کے لیے عدالتوں میں درخواستیں جمع کروائی جا رہی ہیں۔ کسی کو موسم سے مسئلہ ہے، کسی کو حلقہ بندیوں پر اعتراض ہے، کسی کو رجسٹرڈ ووٹوں کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن آئینی ذمہ داری ہے جو ریاست کو پوری کرنی ہے اور ملک کی بقا اور ترقی صرف الیکشن میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس طرح کی غیر یقینی کا ایک منفی نتیجہ یہ ہوگا کہ انتخابات کے نتائج متنازعہ ہو جائیں گے۔
ملک میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان اور سیاسی کارکنوں کو آئینی و پارلیمانی امور پر ٹریننگ دینے والے دانشور و لکھاری جامی چانڈیو کہتے ہیں کہ نا صرف انتخابات کی تاریخ اور شیڈول بلکہ پورے انتخابی عمل پر عوام کو شکوک و شبہات ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں انتخابی عمل شفاف نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے وجود کے آنے کے بعد 23 سالوں کے بعد پہلی بار 1970 میں انتخابات کروائے گئے اور ان کے نتائج کو قبول نہیں کیا گیا۔ جامی چانڈیو کے مطابق ریاست اور الیکشن کمیشن خود اس کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ الیکشن کمیشن اور حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ 90 دن کے اندر انتخابات ہوں مگر ایسے نہیں کیا جاتا۔ انتخابی عمل کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ کوئی اچھی نہیں۔ 1970 کے بعد ہونے والے تمام انتخابات پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات کے عمل یا مقررہ تاریخ پر شکوک و شبہات شہری نہیں پیدا کرتے بلکہ یہ خود ریاست کی پیداوار ہیں۔
جامی چانڈیو نے کہا کہ الیکشن تاریخ پر شکوک و شبہات کی ایک وجہ دھاندلی ہے جو پہلے صرف انتخابات والے دن ہوتی تھی مگر اب وہ انتخابات سے پہلے حلقہ بندیوں کی صورت میں اور ووٹوں کی رجسٹریشن میں ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ دھاندلی انتخابات والے دن اور اس کے نتائج کے اعلان تک جاری رہتی ہے۔
ٹنڈو الہیار سندھ سے تعلق رکھنے والے 73 سالہ سابق صوبائی الیکشن کمشنر سونو خان بلوچ ملک میں 1977 سے لے کر 2013 تک ہونے والے 9 عام انتخابات (1977، 1985، 1988، 1990، 1993، 1997، 2002، 2008 اور 2013) کے عمل میں شامل رہے ہیں۔ انہوں نے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بطور صوبائی الیکشن کمشنر الیکشن کروائے ہیں۔ سونو خان بلوچ کہتے ہیں کہ میری یادداشت کے مطابق 1988 میں جب جنرل ضیاء الحق نے انتخابات کا اعلان کیا، تاریخ مقرر ہوئی تو کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا کہ الیکشن اعلان کردہ تاریخ کو کروائے جائیں گے مگر وہ الیکشن اسی تاریخ کو ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 1977 میں جو انتخابات کروائے گئے ان کے نتائج خارج کر دیے گئے اور ان کا الیکشن کمیشن کی طرف سے ریکارڈ بھی ضائع کر دیا گیا۔
سونو خان بلوچ کہتے ہیں 8 فروری 2024 کو ہونے والے انتخابات کے ہونے اور نہ ہونے کی بحث کچھ عناصر کی اپنی پیداوار ہے۔ وہ نہیں چاہتے ووٹرز کو یقین ہو کہ الیکشن ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ جو لوگ سردی کے موسم کو انتخابات ملتوی کروانے کے لیے وجہ قرار دے رہے ہیں اور جواز پیش کر رہے ہیں ان کو یاد نہیں کہ 2008 کے انتخابات بھی ان ہی دنوں میں ہوئے تھے؟
سونو خان نے بتایا کہ محفلوں میں سیاست دان الیکشن کے بارے میں خود ایسی غیر یقینی پھیلاتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ اس وقت اوپر احتساب چل رہا ہے (ان کا اشارہ شاید فوج کی طرف ہے)، اس کے مکمل ہونے تک انتخابات نہیں ہوں گے۔
سرور باری پاکستان میں انتخابی امور کے ماہر ہیں۔ وہ انتخابی امور پر لکھتے اور بولتے رہتے ہیں۔ اس وقت وہ غیر سرکاری ترقیاتی تنظیم پتن کے سربراہ ہیں۔ وہ پاکستان میں شفاف انتخابات کے لیے کام کرنے والے ادارے فافن (فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک) کی سربراہی کر چکے ہیں۔ سرور باری کہتے ہیں کہ ضیاء دور کے بعد 2023 اور 2024 میں اعلانیہ انتخابات ملکی تاریخ کے واحد انتخابات ہیں جن کے منعقد ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات اور قیاس آرائیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1977 کے بعد ملک میں 9 انتخابات ہوئے ہیں اور یہ تمام انتخابات مقررہ تاریخ کو ہی ہوئے ہیں۔
باری کے مطابق ضیاء الحق کے دور میں بھٹو مخالف 9 سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان نیشنل الائنس (پی این ای) کی قیادت بھٹو کی مقبولیت سے خوفزدہ تھی اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ الیکشن ہوں کیونکہ ان کو اندازہ تھا کہ بھٹو ایک بار پھر انتخابات جیت جائیں گے۔ اس اتحاد کو 9 ستارے بھی کہا جاتا تھا۔ اس وقت بھٹو جیل میں تھے اور عوام میں بڑے مقبول تھے۔ ان کی مقبولیت سے خوفزدہ 9 ستارے والا اتحاد نہیں چاہتا تھا کہ الیکشن ہوں۔ مارچ 2023 میں انتخابات کی بات کی گئی مگر وہ نہیں ہو پائے۔ اس کے بعد اب جب الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 فروری کو انتخابات کی تاریخ مقرر ہے تو الیکشن کمیشن، وزیر اعظم پاکستان سمیت ملک کے چیف جسٹس بھی واضح کہہ چکے ہیں کہ الیکشن مقررہ تاریخ یعنی 8 فروری 2024 کو ہوں گے مگر تحریک انصاف اور عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ سیاسی و عسکری عناصر نہیں چاہتے کہ الیکشن 8 فروری کو ہوں۔
سرور باری نے بتایا کہ ملک کے موجودہ فاتحین تو کیا برطانوی فاتحین کو بھی مجبوراً بر صغیر میں الیکشن کروانے پڑے تھے۔ ان کو بھی الیکشن کروانے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر 2024 کو ہونے والے انتخابات میں عوام کے ووٹ اور عوامی رائے کا احترام نہیں کیا گیا تو انتخابات کے نتائج بالکل اسی طرح نہیں مانے جائیں گے جیسے 1970 میں ہونے والے انتخابات کے نتائج نہیں قبول کیے گئے تھے اور الیکشن متنازعہ بن گیا تھا۔ اسی انتخابی تکرار میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق 25 جولائی 2023 تک ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ 69 لاکھ 80 ہزار 2 سو 72 ہے جن میں 6 کروڑ 85 لاکھ 8 ہزار 2 سو 58 مرد جبکہ 5 کروڑ 84 لاکھ 72 ہزار 14 خواتین شامل ہیں۔