قوم کو جمہوریت اور سہولت کاری کا فرق سمجھنا ہو گا

موجودہ حالات میں حکومت کرنا کوئی آسان کام نہیں اور اگر ابھی سے انتخابات کو متنازعہ بنانے کی سازشیں شروع ہو گئی ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کا آغاز ہو چکا۔ لہٰذا ان الزامات اور خدشات کی تحقیقات انتخابات سے پہلے ضروری ہے تا کہ یہ سلسلہ رک سکے۔

06:55 PM, 15 Dec, 2023

ڈاکٹر ابرار ماجد

تجزیہ کاری کی بنیاد چونکہ خدشات پر بھی ہوتی ہے اور اس بارے ماضی میں ملے جلے رجحانات موجود ہیں۔ عمومی طور پر تو کوئی بھی اس طرح کی سہولت کاریوں سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتا لیکن میثاق جمہوریت کے بعد والے منظرنامے میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف کے حق میں موجود حقائق کو جھٹلانا ناممکن ہے اور دوسری جماعتوں کے کھاتے میں اس وقت تک خدشات سے بڑھ کر کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔

اگر خدشات کے متعلق میڈیا میں موجودہ تبصروں کو ماضی کے ساتھ جوڑ کا دیکھیں تو ان کا تحریک انصاف کی سہولت کاریوں کا تحفظ کرنے والوں کے ساتھ ایک خاص تانا بانا ہے جس سے یہ غالب تاثر ملتا ہے کہ دراصل وہ اس طرح کے خدشات کو پیدا کر کے نواز شریف سے کی گئی زیادتیوں اور اپنے سابقہ تبصروں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بیانیہ گھڑ رہے ہیں جو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سازش بھی ہو سکتی ہے۔ اس سازش کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ نواز شریف کو مصالحتی بیانیے سے ہٹا کر اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی طرف لایا جائے تاکہ مسلم لیگ ن اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش کی صورت حال پیدا کی جا سکے۔ لہٰذا نواز شریف کو اس حساس پہلو کو بڑے تدبر اور احتیاط کے ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کے معاشی حالات اس وقت اس طرح کی لغزشوں کے متحمل نہیں ہو سکتے اور ریاست مفاہمتی عمل کا تقاضا کر رہی ہے جس کا میں نے ایک گذشتہ کالم میں ذکر بھی کیا ہے۔

ماضی میں عوامی رائے کو ہموار کرنے کے لئے میڈیا کے ذریعے سازگار ماحول کا بیانیہ چلوایا جاتا رہا ہے۔ مثلاً میڈیا کو کہا جاتا تھا کہ خاص لوگوں کے لئے سافٹ امیج بلڈ کرنا ہے۔ موجودہ میڈیا کا بیانیہ تو مکمل طور پر نواز شریف کے خلاف جا رہا ہے جس میں ماضی پر استدلال کر کے اسے سہولت کاری سے جوڑنے کا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر اس تاثر کو سچ فرض کر لیا جائے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت میڈیا ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہے کیونکہ اس تاثر سے نواز شریف کو فائدہ پہنچنے کے بجائے ان سے کی گئی زیادتیوں کی طرف سے توجہ ہٹا کر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور انتخابات سے قبل ہی اس کو متنازعہ بنا کر آنے والی حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں۔

جس طرح چند صحافیوں کی طرف سے ایک طرف سہولت کاری کے بیانیے کو چلایا جا رہا ہے اور ساتھ ہی میڈیا پر دباؤ کے بھی شوشے چھوڑے جا رہے ہیں جو انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ اگر اس سہولت کاری کے بیانیے کو صحافتی دباؤ کے خدشات سے جوڑتے ہوئے دباؤ کو سچ مان لیا جائے تو پھر نواز شریف کے خلاف بیانیہ ممکن کیسے بنا ہوا ہے اور دوسری صورت میں طاقتور حلقوں کی بے بسی کو ماننا عقلی تقاضوں کے خلاف ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ واقعی سہولت کاری دے رہی ہے تو پھر کیا وہ مکمل حمایت کی طاقت نہیں رکھتی کہ ماضی کی طرح میڈیا کو ان کی سہولت کاری پر بولنے کے بجائے ان کے لئے ماضی کی طرح سافٹ امیج بلڈ کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ لہٰذا میرے خیال میں تو ان افواہوں کی بنیاد خدشات کے سوا کچھ نہیں اور فوج کی نیوٹریلٹی کو ماضی کے اندازوں سے موازنہ کر کے یہ بیانیہ چلایا جا رہا ہے۔

حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے تحقیق کروانی چاہئیے کیونکہ اس سے ان کی ساکھ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور اداروں کی پروٹیکشن بھی حکومت کی ہی انتظامی ذمہ داریوں میں آتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بارے اقدامات اٹھائے اور اگر کسی جماعت کو تحفظات ہیں تو ان کو دور کیا جائے۔

نواز شریف کو اس سہولت کاری کے تاثر کو ختم کرنے پر غور کرنا ہو گا وگرنہ انتخابات متنازعہ ہو جائیں گے۔ اس تاثر کا چونکہ تعلق حقائق سے نہیں بلکہ میڈیائی وار سے ہے تو اس کا مقابلہ بھی وہیں کرنے کی ضرورت ہے جس میں ڈس انفارمیشن کو حقائق کی روشنی میں واضح کر کے عوام میں رائے کو ہموار کرنے کی ضرورت ہے۔

جہاں تک مسلم لیگ ن کے بیانیے میں سے مفاہمتی اور مزاحمتی تاثرات کے اتار چڑھاؤ سے اندازے لگانا ہے تو یہ شہبازشریف اور نواز شریف کے مزاج کے فرق اور اس کے جماعت کے اندر گروہی تاثرات اور ان کے بیانیے پر اثرات سے بھی ہے جس کی جھلک کبھی ملکی مفاد میں کم ہوتی ہوئی تو کبھی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے زیادتیوں کا ذکر کر کے احتساب کے مطالبے کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ اس بیانیے کا کسی بھی قسم کا موجودہ فوجی قیادت سے تو کوئی تعلق نہیں اور سابقہ قیادت میں بھی جنرل باجوہ کی توسیع کے بعد سے کافی حد تک سرد مہری آئی تھی جس سے 'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے کی مقبولیت پر بھی منفی اثرات پڑے تھے۔ ویسے بھی ان تعلقات کی بنیاد پر کبھی بھی کسی سول حکومت کو فائدے نہیں ملے جیسا کہ ماضی میں تینوں اپنے ادوار میں نواز شریف صاحب نے فوجی سربراہاں کی تعینایتاں اپنی ترجیحات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سنیارٹی سے ہٹ کر کیں مگر ان سے فائدے کے بجائے چیلنجز زیادہ دیکھنے کو ملے۔ لہٰذا موجودہ تعیناتی سے بھی اس طرح کا تاثر دینے کو خدشات کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔

اسی طرح اگر مقبولیت اور کارکردگی کی بنیاد پر موجودہ منظرنامے کو دیکھا جائے تو سوشل میڈیائی تاثرات جن کا تعلق حقائق سے زیادہ ڈس انفارمیشن سے ہے، کو نکال کر مارچ 2022 تک عمران خان کی مقبولیت ان کی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ختم ہو چکی تھی اور مسلم لیگ ن باقی جماعتوں میں اپنی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر لیڈ کر رہی تھی۔ عدم اعتماد کے نتیجے میں حکومت کی تبدیلی نے اس تناسب کو مکمل طور پر الٹا کر رکھ دیا جس کی وجہ عمران خان کے امریکہ و اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر ان کے ساتھ ہمدردیاں اور پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی حکومت کا مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کا بہت بڑا کردار تھا۔ اس سے پاکستان کے سیاسی اور مقتدر حلقے کافی حد تک خائف ضرور تھے مگر عمران خان نے اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنی اس مقبولیت کو مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔

9 مئی کے بعد یہ تناسب بھی کافی حد تک بدلا ہے جس میں فوج کا گراف تو کافی بہتر ہوا ہے جس سے تحریک انصاف کا نیچے جانا بھی یقینی ہے لیکن باقی سیاسی جماعتوں کے لئے ابھی بھی یہ ایک چیلنج ہے جسے وہ آپس میں انتخابات سے پہلے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی صورت قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس کو جمہوریت مخالف ہوا دینا یا سہولت کاری سے جوڑنا صحافتی نا انصافی ہے کیونکہ بغیر کسی ریاستی دباؤ کے سیاسی جوڑ توڑ اور الحاق شہریوں اور سیاسی جماعتوں کا جمہوری حق ہے۔

سیاسی حلقوں میں اس جوڑ توڑ اور الحاق کی روشنی میں اگر جائزہ لیا جائے تو مسلم لیگ ن کی طرف بڑھتا ہوا رجحان ان پر سیاسی حلقوں میں پاکستان کے چیلنجز سے نمٹنے اور مستقبل میں ریاستی معاملات سنبھالنے پر اعتماد کی طرف اشارہ ہے۔ اس سے یہ غالب تاثر بھی ملتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت اور کارکردگی دوسری جماعتوں کی نسبت بہتر ہے۔ اس کے برعکس کوئی بھی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کے تاثر کے باوجود کوئی سیاسی اتحاد کی بات کرنے کو تیار نہیں جس کی وہ کوشش بھی کر چکے ہیں جن میں ان کو الٹا رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کا انتشار پر مبنی انداز سیاست ہے جس میں عوام کو ریاست کے خلاف اور جمہوریت کو آئین و قانون کے سامنے لا کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

سیاسی جماعتوں کو بھی ایک دوسرے پر بے بنیاد الزامات لگانے کے بجائے ثبوتوں کے ساتھ اداروں سے رجوع کرنا چاہئیے اور اس پر تحقیقات کی چارہ جوئی کا قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئیے۔ اسی طرح جن سیاسی جماعتوں پر الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ بھی اس پر وضاحت دیں یا اگر وہ سمجھتے ہیں کہ الزامات بے بنیاد ہیں تو متعلقہ افراد یا جماعت کی جوابدہی کے قانونی عمل کو حرکت میں لائیں تاکہ بے بنیاد الزامات کا یہ سلسلہ ختم ہو سکے۔

اس میں سوشل میڈیا کا بھی ایک اہم کردار ہے جس میں جھوٹ اور سچ کو خلط ملط کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس پر بھی نگرانی کا کوئی میکنزم بنائے جانے کی ضرورت ہے اور حکومت کی طرف سے بھی حقائق کو سامنے لانے کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقت سے عوام کو آگاہ کیا جا سکے۔

تحریک انصاف کا اب انتخابات میں برابری کی بنیاد پر شرکت کا فیصلہ جہاں جائز ہے وہاں آئینی و قانونی تقاضوں کو پورا کرنا بھی ریاستی فلاح کا تقاضا ہے۔ یہ بات بھی کسی حد تک ٹھیک ہے کہ صلاحیتوں اور کارکردگی سے قطع نظر محض لفاظی کی بنیاد پر حاصل شدہ مقبولیت کے بل بوتے پر یہ حق مان بھی لیا جائے تو بھی ان کو اپنے انداز سیاست کو بدلنے کی یقین دہانی کروانی ہو گی کیونکہ انتشاری سیاست کی روایت ڈال کر ملک کے نظام کو تو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا مگر اس کا یہ بھی قطعاً مطلب نہیں کہ کسی کو غیر جمہوری اور بے اصولی سیاست کے برتاؤ کا نشانہ بنا کر عوامی مینڈیٹ کی توہین کی جائے۔

انصاف اور برابری کا آئینی و قانونی تقاضا یہی ہے کہ جرم اور بد عنوانی پر آئین اور قانون کے تقاضے پورے کئے جائیں اور جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس کو ریلیف دیا جائے مگر کسی کو غیر جمہوری اور بے اصولی سیاست کے ذریعے سہولت کاری دے کر ملکی سلامتی و بقا کو بھی خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔

اس لئے سیاسی جماعتوں اور صحافتی حلقوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ جب ادارے خود احتسابی کا عمل شروع کر چکے ہیں تو پھر ان کو کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہئیے چہ جائے کہ اس معاملے کو بڑھا چڑھا کر پھر سے سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھا جائے۔ اس وقت سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور اور سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر اپنی الیکشن کمپین چلانی چاہئیے، نہ کہ الزامات کی سیاست کے بل بوتے پر۔ عوام کو بھی اسی بنیاد پر اپنا ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہئیے۔ اسی طرح ہر ایک کو اداروں کے اپنے فرائض کی ادائیگی میں آئینی تقاضوں کو بھی سمجھنے اور پورا کرنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ حالات میں حکومت کرنا کوئی آسان کام نہیں اور اگر ابھی سے انتخابات کو متنازعہ بنانے کی سازشیں شروع ہو گئی ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ رکاوٹیں کھڑی کرنے کا آغاز ہو چکا۔ لہٰذا ان الزامات اور خدشات کی تحقیقات انتخابات سے پہلے ضروری ہے تا کہ یہ سلسلہ رک سکے۔ سیاسی جماعتوں کو جمہوری اقدار اور اصولی سیاست کا دامن کسی صورت بھی نہیں چھوڑنا چاہئیے کیونکہ غلطیوں کے ازالے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن ملک کے نظام کو نقصان پہنچانا جس کی اساس آئین ہوتا ہے، قومی جرائم میں آتا ہے جس کی معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

عوام کو حقیقت پسندی کی بنیاد پر موجودہ حالات کو خدشات کے ساتھ جوڑنے کے بجائے ملک و قوم کی فلاح کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے ماضی کی کارکردگی کے ریکارڈ کے ساتھ جوڑ کر مستقبل کو محفوظ بنانے کے اقدام کی حمایت پر توجہ دینی چاہئیے۔

اسی طرح اگر نواز شریف ماضی کی زیادتیوں پر خاموش ہیں تو اس کی وجہ ملک و قوم کی فلاح کو ان زیادتیوں پر ترجیح دینا ہو سکتی ہے اور اس کو کسی ڈیل سے جوڑنا بھی ان کی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان چپقلش کروانے کی مذموم کوشش کا حصہ ہو سکتا ہے جس کو سمجھتے ہوئے ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں