فیض کا جنم دن، اور اروندھتی رائے کے ساتھ جنگل میں ’ہم دیکھیں گے‘ گاتے انقلابی

01:07 PM, 15 Feb, 2019

علی وارثی
فیض احمد فیض برصغیر کی تاریخ کے چند عظیم ترین شعراء میں سے ہیں۔ ان کی نظمیں جہاں مساوات کا درس دیتی ہیں، وہیں مساوات کے لئے لڑنے اور جدوجہد کرنے کی ترغیب بھی دیتی ہیں۔ 18 برس کی عمر میں شاعری کا سفر شروع کرنے کے بعد صرف 24 برس کی عمر میں فیض نے بطور بانی رکن پروگریسو پیپرز لیمیٹڈ کا سنگِ بنیاد رکھا۔ یہ وہی پروگریسو پیپرز لیمیٹڈ ہے جس پر ایوب خان کی حکومت نے قبضہ کیا اور پاکستان ٹائمز جیسے ترقی پسند اخبار کا گلا گھونٹ دیا۔

فیض نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں لیکن ان کا قلم آزادی کے نغمے لکھتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیں آج بھی دلوں کو گرماتی ہیں اور اب بھی کبھی کبھی آنکھوں میں عوامی انقلاب کے خواب جگا دیتی ہیں۔

فیض، ساحر کی طرح مایوس نہیں۔ وہ امید کی بات کرتے ہیں، کبھی ختم نہ ہونے والی جدوجہد کی بات کرتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ

بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم

تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ فیض کی نظر میں انقلاب کی جدوجہد کوئی ایک دو دن کی بات نہیں بلکہ یہ نسلوں پر محیط ایک سفر ہے جس میں ہر شخص کو اپنے حصے کی شمع جلاتے جانی ہے۔ وجاہت مسعود نے لکھا تھا: “جبر، جہالت اور نانصافی کے خلاف کامیابی کی ضمانت لے کر لڑائی نہیں کی جاتی۔ ہماری جنگ جاری ہے۔ ہم یہ لڑائی سو، دو سو برس میں نہیں ناپتے۔ یہ جنگ تو علم کے پھیلتے ہوئے آفاق کے ساتھ ہر لحظہ متعین ہوتی ہے۔”

اسی خیال کو فیض نے اپنی شہرہ آفاق نظم ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ

کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جاملے

قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے

فیض کا پیغام آفاقی ہے۔ اروندھتی رائے اپنی کتاب The Broken Republic میں بیان کرتی ہیں کہ ہندوستان کے ماؤئسٹ جب انہیں اپنی تنظیم کے لوگوں سے ملوانے ان جنگلات میں لے کر گئے جہاں وہ اپنے گھروں سے بے گھر کیے جانے کے بعد پناہ گزین تھے، تو ایک رات سب ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اچانک وہاں کسی نے ٹیپ ریکارڈ پر اقبال بانو کی آواز میں فیض کی نظم ’ ہم دیکھیں گے‘ لگا دی۔ اروندھتی لکھتی ہیں کہ تمام کارکنان یک زبان ہو کر اس نظم کو گانے لگے۔

فیض  کو ان کی اسی آفاقی شاعری کے باعث 1962 میں لینن امن انعام بھی دیا گیا۔ 1984 میں جب ان کا انتقال ہوا تو اس سے کچھ ہی دیر قبل انہیں یہ خبر ملی تھی کہ انہیں ادب کے نوبیل انعام کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔

13 فروری کو ان کی 108ویں سالگرہ گزری ہے۔ اس موقع پر ان کی چند یادگار غزلوں اور نظموں، جو اقبال بانو، مہدی حسن، نور جہاں اور نیرہ نور جیسے عظیم فنکاروں نے گائیں، میں سے چند پیشِ خدمت ہیں۔

اقبال بانو کی آواز میں یہ لازوال نظم ’ ہم دیکھیں گے‘ شاید اس سے بہتر نہ گائی جا سکتی ہو، اور نہ ہی سنی جا سکتی ہو۔ اس آڈیو میں خاص بات سننے والوں کا جذبہ ہے جو نعروں اور تالیوں کی گونج میں اس منظر کو آنکھوں میں لے آتا ہے جو شاید اروندھتی نے اس رات جنگل میں دیکھا تھا۔



نور جہاں بغیر کسی بیک گراؤنڈ میوزک کے ’آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے‘ گا رہی ہیں۔



بات جب فیض کی غزلوں کی ہو رہی ہو تو مہدی حسن کی گائی ہوئی ’گلوں میں رنگ بھرے‘ کا ذکر کیسے نہ کیا جائے؟ اس غزل کو 2014 میں بھارت میں بننے والی فلم ’حیدر‘ میں بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ 2017 میں جب مشعال خان کو قتل کیا گیا تو یہی غزل تھی جس نے مجھے کئی راتیں تھپکیاں دے دے کر سلایا۔



نور جہاں کی گائی ہوئی یہ غزل شاید کسی بھی اس شخص کے لئے سمجھنا قطعاً مشکل نہ ہو جس نے کسی سانحے کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ سید قاسم محمود اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ آزادی کے وقت ایک روز اتنی زوروں کی بارش ہوئی کہ سارا گاؤں میں سکھوں سے مقابلہ کرنے کے لئے جتنا بارود تھا سب کا سب گیلا ہو کر ناکارہ ہو گیا۔ اکابرین بیٹھے اور فیصلہ کیا کہ آج ہی رات ہجرت کی جائے گی۔ ابھی قافلہ کچھ ہی دور گیا تھا کہ سکھوں کے گھوڑوں نے آ لیا۔ تمام قافلے کو لوٹ کر قتل کر دیا گیا۔ اس موقع پر قاسم محمود بھی ایک لاش کے نیچے دبے ہوئے تھے کہ سکھ انہیں مردہ سمجھ کر وہیں چھوڑ گئے۔ اگلے تین چار دن تک سکھ بار بار اس جگہ کا چکر لگاتے رہے، اور قاسم محمود ایک کنوئیں میں چھپے رہے۔ اس دوران وہ اپنے پورے گاؤں کو چیل، کووں، گِدھوں اور گیدڑوں کی خوراک بنتے دیکھتے رہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد زندگی میں کوئی بھی خوشی کوئی بھی غم آیا تو اس واقعے سے ہو کر ہی ان تک پہنچا۔ فیض نے بھی جدوجہدِ آزادی، سرد جنگ، سانحہ بنگال، قید و بند سبھی کچھ دیکھ رکھا تھا۔ نجانے خوشیاں اور غم کس کس واقعے سے ہو کر پہنچتے ہوں گے۔

تبھی تو کہہ گئے ہیں کہ،

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجئے



یوٹیوب پر ویڈیو موجود ہے جسے نیا دور نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی شائع کیا تھا۔ اس ویڈیو میں فیض ایک محفل میں موجود ہیں اور بتا رہے ہیں کہ انہیں ٹانگے میں بٹھا کر پولیس عدالت لے جا رہی تھی، ان کے ہاتھوں اور پیروں میں بیڑیاں بندھی تھیں، کہ راہ چلتے لوگوں نے انہیں پہچان لیا اور ٹانگے کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ اسی منظر نے اس لافانی نظم کو جنم دیا،

خاک بر سر چلو، خوں با داماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
آج بازار میں پابجولاں چلو



اور آخر میں یہ دعا کہ جس میں، میں ذاتی طور پر بہت اپنائیت محسوس کرتا ہوں۔ ہم تشکیک کے مارے مسلمان کہ جنہیں ہر طرف سازش نظر آتی ہے، نماز پڑھے ہفتوں بیت جاتے ہیں، مگر کہیں کوئی ایک باریک سا دھاگا جو اپنے اصل سے جوڑے رکھتا ہے، مصطفیٰ زیدی کے الفاظ میں کبھی واپس جانا پڑ جائے، اپنے مذہب کی طرف اپنے خدا کی جانب، ایہالناس چلو کوہِ ندا کی جانب، تو یہ دعا بہت کام آتی ہے۔ حال ہی میں علی رضا عابدی کے قتل کے وقت جب بہت مایوسی کے عالم سے گزر رہا تھا، تو پھر سکون نماز ہی میں ملا۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو کہیں دل کو کچھ قرار سا آ گیا۔ تبھی ٹوئٹر پر محمد تقی کی ٹوئیٹ دیکھی تو یوں لگا جیسے یہ دعائیہ نظم کسی ایسے ہی لمحے میں لکھی گئی ہوگی۔۔۔

مزیدخبریں