ٹویٹر پر اپنے پیغام میں اقرارالحسن کا کہنا تھا کہ انسپکٹر کاشف جس کے رشوت کے ثبوت لے کر ہم انٹیلی جنس بیورو کے دفتر پہنچے تھے، اسی گستاخی پر ڈائریکٹر آئی بی رضوان شاہ اور اُن کی ٹیم نے اسلحہ نکال کر ٹیم سرِعام پر خونریز تشدد کیا۔ بدمعاشی کا یہ عالم ہے کہ حملے کی ابتدائی ریکارڈنگ والے ہمارے کیمرے ابھی تک واپس نہیں کئے گئے۔
https://twitter.com/iqrarulhassan/status/1493562672390230016?s=20&t=oPUoiaGljOYDmW1Ppx5zIw
ایک اور ٹویٹ میں اقرار الحسن کا کہنا تھا کہ کل اگر چار لوگ نہ ہوتے تو شاید میں یا ٹیم سرِعام کا کوئی رکن آئی بی کے ہاتھوں قتل ہو چکا ہوتا۔ سلمان اقبال کہ جو ہمیشہ آہنی دیوار بن کر ہمارا دفاع کرتے ہیں۔ عماد یوسف جو باس سے زیادہ بڑے بھائی ہیں اور شہباز گل صاحب جو کل ہر لمحہ ہمارے ساتھ تھے اور سب سے بڑھ کر وزیراعظم عمران خان۔
https://twitter.com/iqrarulhassan/status/1493536151021715458?s=20&t=oPUoiaGljOYDmW1Ppx5zIw
ان کا کہنا تھا کہ مجھے احساس ہے کہ میں حالیہ دنوں میں حکومت پر بہت تنقید کرتا رہا ہوں، لیکن یہ معمولی بات نہیں کہ وزیراعظم ایک صحافی پر تشدد کے بعد اپنی حکومت میں، اپنے ماتحت ادارے انٹیلی جنس بیورو کے اعلیٰ افسران کے خلاف کارروائی کریں۔ مشیران اور وزراء بھی اپنے ادارے کی بجائے صحافی کے ساتھ ہوں۔
واضح رہے کہ اے آر وائی نیوز کے اینکر پرسن نے رشوت خور افسر کے خلاف اسٹنگ آپریشن کیا جو محکمے کے اعلیٰ افسران کو بالکل بھی برداشت نہ ہوا۔
آئی بی کا افسر نادرا کی تصدیق کیلئے گھروں میں آکر رشوت لیتا تھا۔ ثبوت کے ساتھ شکایت کیلئے آئی بی آفس جانے والی اے آر وائی ٹی وی کی ٹیم کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
رشوت خوری سے متعلق سوالات پوچھنے پر سرعام کی ٹیم کو برہنہ کرکے بہیمانہ تشدد کیا گیا جس کے نتیجے میں اقرار الحسن اور دیگر ممبران شدید زخمی ہو گئے اور ان کی ویڈیوز بھی بنائی گئیں۔
https://twitter.com/WaseemBadami/status/1493359774230097920?s=20&t=oPUoiaGljOYDmW1Ppx5zIw
سفاک اہلکاروں نے اسی پر بس نہ کیا بکلہ اپنے اپنے اعلیٰ افسر کی ہدایت پر کچھ ممبران کے نازک اعضاء پر کرنٹ بھی لگایا گیا۔
بعد ازاں وزیراعظم ہاؤس نے معاملے کا فوری نوٹس لیا۔ جس کے بعد وفاقی حکومت نے آئی بی کے پانچ افسران کو معطل کردیا۔ ڈائریکٹر آئی بی سید رضوان سمیت پانچ افسران کی معطلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
افسران میں محبوب علی، انعام علی، رجب علی اور خاور شامل ہیں۔ پروگرام کے میزبان اقرار الحسن نے بتایا کہ ہم نے ہر قسم کا ظلم برداشت کیا، ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر کئی گھنٹے حبس بے جا میں رکھا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ہم آئی بی افسران کی کرپشن کو بے نقاب کر رہے تھے، جس کی پاداش میں ہمیں زخمی کیا گیا ہے۔ سر پر چوٹ لگی جس کی وجہ سے 7،8 ٹانکے لگے ہیں۔