عام انتخابات؛ 12 خواتین بڑے مقابلے جیت کر قومی اسمبلی پہنچ گئیں

پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 28، ن لیگ نے 13 جبکہ پیپلز پارٹی نے 11 نشستوں پر خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے تھے۔ ان میں سے پی ٹی آئی کی 5، ن لیگ کی 4، پیپلز پارٹی کی 2 جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کی 1 خاتون امیدوار جنرل نشست پر کامیاب قرار پائیں۔

03:34 PM, 15 Feb, 2024

وجیہہ اسلم

2024 کے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کل 882 خواتین امیدواروں نے الیکشن لڑا۔ ان میں سے 312 نے قومی اسمبلی کے لیے اور 570 نے صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے۔ اس طرح 2024 کے انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین امیدواروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کے لیے ملک بھر سے 12 خواتین امیدوار جنرل نشستوں پر الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی 28 نشستوں پر خواتین کو ٹکٹ جاری کیے جن میں سے 5 خواتین قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ مسلم لیگ ن نے قومی اسمبلی کی 13 نشستوں پر خواتین کو انتخابی میدان میں اتارا جن میں سے 4 خواتین کامیاب ہوئیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 11 نشستوں پر خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے تھے جن میں سے 2 خواتین کامیاب قرار پائیں۔

کامیاب ہونے والی خواتین میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب خواتین امیدواروں میں سے پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ 5 آزاد امیدواروں میں شاندانہ گلزار خان (این اے 30، پشاور 3)، انیقہ مہدی بھٹی (این اے 67، حافظ آباد)، عائشہ نذیر جٹ (این اے 156، وہاڑی 1)، عنبر مجید (این اے 181، لیہ 1) اور زرتاج گل (این اے 185، ڈیرہ غازی خان 2) شامل ہیں۔

مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر مریم نواز شریف (این اے 119، لاہور III)، شذرا منصب کھرل (این اے 112، ننکانہ صاحب II)، بیگم تہمینہ دولتانہ (این اے 158، وہاڑی VIII) اور نوشین افتخار (این اے 73، سیالکوٹ IV) کامیاب ہوئی ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے 2 خواتین امیدواروں نفیسہ شاہ (این اے 202، خیرپور I) اور شازیہ مری (این اے 209، سانگھڑ I) نے اپنے اپنے حلقوں سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے ٹکٹ پر کراچی کے حلقہ این اے 232، کورنگی I سے ایک امیدوار آسیہ اسحاق صدیقی نے کامیابی حاصل کی۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

شاندانہ گلزار خان

این اے 30 پشاور سے تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار شاندانہ گلزار خان 78 ہزار 971 ووٹ لے کر کامیاب ہوئی ہیں۔ ان کے مدمقابل جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے امیدوار ناصر خان 20 ہزار 950 ووٹ لے کر حلقے میں دوسرے نمبر پر رہے۔ اس حلقہ کا ٹرن آؤٹ 33.8 فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 4 ہزار758  رہی۔

شاندانہ گلزار 2018 کے عام انتخابات میں خیبر پختونخوا سے خواتین کی مخصوص نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ انہوں نے وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے کامرس کے طور پر خدمات انجام دیں۔

انیقہ مہدی بھٹی

2024 کے انتخابات میں یہ وہ حلقہ تھا جہاں دو خواتین براہ راست قومی اسمبلی کے الیکشن میں ایک دوسرے کے مد مقابل تھیں۔ تحریک انصاف کی حمایت یافتہ انیقہ مہدی بھٹی 2 لاکھ 11 ہزار 39 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی امیدوار سائرہ افضل تارڑ 1 لاکھ 83 ہزار 946 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہیں۔ اس حلقہ میں ٹرن آؤٹ 53.02 فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 13 ہزار 377 رہی۔

2018 میں ضلع حافظ آباد کی سیاست میں دو سیاسی حریف بھٹی اور تارڑ برادری ہی مدمقابل تھے۔ بھٹی خاندان سے مہدہ بھٹی کی بیٹی انیقہ مہدی جبکہ تارڑ خاندان کی بہو سائرہ افضل تارڑ کے مابین مقابلہ تھا۔ سائرہ افضل تارڑ سابق صدر رفیق تارڑ کی بہو اور سابق ایم این اے افضل حسین تارڑ کی بیٹی ہیں۔ میاں افضل حسین تارڑ نے 2008 میں اپنی بیٹی سائرہ افضل تارڑ کو انتخابی میدان میں اتارا تھا جو پہلی مرتبہ 2008 کے جنرل الیکشن میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں جبکہ 2013 کے جنرل الیکشن میں اسی حلقہ سے دوسری بار منتخب ہو کر ایوان زیریں کا حصہ بنیں۔

عائشہ نذیر جٹ

تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار عائشہ نذیر جٹ وہاڑی کے حلقہ این اے 156 سے 1 لاکھ 19 ہزار 820 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں جبکہ ان کے مدمقابل روایتی حریف مسلم لیگ ن کے چودھری نذیر احمد آرائیں 90 ہزار 353 ووٹ لے کر رنر اپ قرار پائے۔ اس حلقے کا ٹرن آؤٹ 53.47 فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 5 ہزار رہی۔ عائشہ نذیر جٹ نے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو 20 ہزار 467 ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔

ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا سے تعلق رکھنے والے نذیر جٹ کی بیٹیاں بھی انتخابی سیاست کا حصہ ہیں۔ 2013 میں اس خاندان کی چار خواتین نے الیکشن میں حصہ لیا۔ ان میں نذیر جٹ کی دو بیویاں اوردو بیٹیاں عائشہ نذیر جٹ اور عارفہ نذیر جٹ شامل تھیں لیکن کوئی بھی اپنی سیٹ نہ جیت سکی۔ 2013 کے انتخابات میں این اے 168 سے عارفہ نذیر جٹ بطور آزاد امیدوار 17 ہزار 445 ووٹ لے کر رنر اپ رہیں۔ عائشہ نذیر جٹ نے بھی آزاد امیدوار کے طور پر این اے 167 سے 43 ہزار 703 ووٹ لیے اور ہار گئیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں بھی دونوں بہنوں نے بطور آزاد امیدوار حصہ لیا مگر دونوں ہار گئیں۔

عنبر مجید

این اے 181 لیہ سے تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار عنبر مجید پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ عنبر مجید 1 لاکھ 20 ہزار 499 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے مسلم لیگ ن کے صاحبزادہ فیض الحسن کو شکست دی۔ اس حلقہ کا ٹرن آؤٹ 59.2 فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 11 ہزار 600 تھی۔

زرتاج گل وزیر

سابق وفاقی وزیر زرتاج گل ایک بار پھر اپنی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔ این اے 185 ڈیرہ غازی خان سے زرتاج گل بطور تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد امیدوار 94 ہزار 881 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ ان کے مدمقابل آزاد امیدوار محمود قادر خان 32 ہزار 929 ووٹ حاصل کر سکے۔ اس حلقہ کا ٹرن آؤٹ 45.84 فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 7 ہزار 65 تھی۔

زرتاج گل 2018 کے انتخابات میں ڈی جی خان کے حلقہ این اے 191 سے کامیاب ہو کر وزیر مملکت برائے ماحولیات رہیں۔ گذشتہ انتخابات میں انہوں نے اس حلقے میں روایتی سیاست دان اور لغاری خاندان کے سردار اویس احمد خان لغاری کو شکست دی تھی۔

مریم نواز شریف

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پہلی بار انتخابی سیاست کا حصہ بنی ہیں۔ لاہور کے حلقہ این اے 119 کے انتخابی نتائج کے مطابق مریم نواز شریف 83 ہزار 855 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شہزاد فاروق 68 ہزار 376 ووٹ لے کر رنر اپ رہے۔ اس حلقے کا ٹرن آؤٹ 38.59 فیصد تھا جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 4 ہزار 109 تھی۔

مریم نواز نے 2018 کے عام انتخابات میں بھی اسی حلقے سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے لیکن الیکشن سے پہلے ہی انہیں نا اہل کر دیا گیا تھا۔ 2018 کے انتخابات میں اس حلقے سے علی پرویز ملک نے ن لیگ کے ٹکٹ پر تحریک انصاف کے امیدوار جمشید اقبال چیمہ کو شکست دی تھی۔

شذرہ منصب علی خان کھرل

ننکانہ صاحب کے مشہور کھرل خاندان سے تعلق رکھنے والی شذرہ منصب کھرل اپنے والد کی وفات کے بعد سیاست میں آئیں۔ حالیہ انتخاب میں انہوں نے اس حلقے سے 1 لاکھ 4 ہزار 67 ووٹ حاصل کیے جبکہ انہوں نے حلقے کے روایتی حریف تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار سابق برگیڈیئر اعجاز احمد شاہ کو شکست دی۔ حلقہ کا ٹرن آؤٹ 54.48 فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 8 ہزار رہی۔

شذرہ منصب کھرل 2015 کے ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے پہلی بار قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ 2018 کے عام انتخابات میں شذرہ منصب پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار و سابق ایم پی اے برگیڈیئر اعجاز شاہ سے انتہائی کم مارجن سے ہار گئی تھیں۔

بیگم تہمینہ دولتانہ

وہاڑی کے حلقہ این اے 158 میں مسلم لیگ ن کی دیرینہ سیاسی رہنما کا تعلق وہاڑی کے دولتانہ خاندان سے ہے۔ حالیہ انتخاب میں تہمینہ دولتانہ 1 لاکھ 11 ہزار 96 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے سابق ایم این اے اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار طاہر اقبال کو شکست دی۔ حلقہ کا ٹرن آؤٹ 54.41 فیصد رہا جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 4 ہزار 916 رہی۔

ضلع وہاڑی سے دولتانہ خاندان کی بات کریں تو یہاں سے 2 خواتین سیاست دان تہمینہ دولتانہ اور شاہدہ دولتانہ انتخابی عمل کا حصہ رہیں۔ ممتاز دولتانہ کے بھتیجے میاں ریاض احمد دولتانہ کی صاحبزادی اور میاں زاہد خان دولتانہ کی ہمشیرہ تہمینہ دولتانہ 1993 کے انتخاب میں کامیاب ہوئی تھیں۔ وہ واحد خاتون تھیں جو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔

سیدہ نوشین افتخار

سیالکوٹ کے اس حلقے میں مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار کا مقابلہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار علی اسجد ملہی سے تھا۔ نوشین افتخار 1 لاکھ 12 ہزار 143 ووٹ لے کر کامیاب رہیں جبکہ علی اسجد ملہی 1 لاکھ 4 ہزار 67 ووٹ لے کر رنر اپ رہے۔ اس حلقہ کا ٹرن آؤٹ 48.41 فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 5 ہزار 185 تھی جبکہ ہار اور جیت کا فیصلہ 8 ہزار ووٹوں سے ہوا۔

نوشین افتخار سیاسی شخصیت سید افتخار الحسن گیلانی کی بیٹی ہیں۔ انہوں نے والد سید افتخار الحسن گیلانی کی وفات کے بعد 10 اپریل 2021 کو ہونے والے ضمنی انتخابات حصہ لیا اور تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی کو شکست دے کر پہلی بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔

نفیسہ شاہ

سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی صاحبزادی نفیسہ شاہ خیر پور کے حلقہ این اے 202 سے 1 لاکھ 11 ہزار 196 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے جی ڈی اے کے امیدوار سید غوث علی شاہ کو شکست دی۔ اس حلقہ کا ٹرن آؤٹ 45.38 فیصد جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 6 ہزار 82 تھی۔

نفیسہ شاہ 2001 سے 2007 تک ضلع خیرپور کی ناظم کے طور پر خدمات انجام دیتی رہیں۔ 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں وہ سندھ سے خواتین کی مخصوص نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ وہ 2018 کے جنرل الیکشن میں بھی قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھی۔

شازیہ عطا مری

ضلع سانگھڑ کے سیاسی مری خاندان سے تعلق رکھنے والی شازیہ مری تیسری بار قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ اس حلقے میں شازیہ مری نے 1 لاکھ 56 ہزار 2 ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے جی ڈی اے کے امیدوار محمد خان جونیجو کو 16 ہزار 879 ووٹوں کے مارجن سے شکست دی۔ اس حلقہ کا ٹرن آؤٹ 52.06 فیصد رہا جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 11 ہزار 879 تھی۔

شازیہ 2002 کے عام انتخابات میں بھی اسی حلقے سے صوبائی اسمبلی کی رکن بنی تھیں اور 2008 میں خواتین کی مخصوص نشست پر پیپلز پارٹی کی جانب سے سندھ اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔ وہ 2010 تک سندھ کی وزیر اطلاعات بھی رہیں۔ شازیہ مری کے والد عطا محمد مری 1967 میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے ممبر، 1970 میں ممبر قومی اسمبلی اور 80 کی دہائی میں مجلس شوریٰ کے ممبر رہے۔ 1990 سے 1993 تک سندھ اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بھی رہے۔ شازیہ مری کی والدہ پروین مری 1985 سے 1986 تک ممبر سندھ اسمبلی رہیں۔

آسیہ اسحاق صدیقی

کراچی کے حلقہ این اے 232 کورنگی سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی امیدوار آسیہ صدیقی 84 ہزار 592 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں۔ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عدیل احمد 66 ہزار 753 ووٹ حاصل کر سکے۔ اس حلقہ کا ٹرن آؤٹ 43 ہزار 6 جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 3 ہزار 789 تھی۔

2018 کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر کراچی سے جن خواتین نے الیکشن میں حصہ لیا تھا ان میں ایم کیو ایم پاکستان کی کشور زہرہ، افشاں قنبر علی، پاک سر زمین پارٹی کی فوزیہ قصوری اور فوزیہ حمید شامل تھیں۔

مزیدخبریں