فیصل واوڈا نے ’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘ کا بدلہ لے لیا

10:52 AM, 15 Jan, 2020

علی وارثی
منگل کی شام اے آر وائے پر کاشف عباسی کے پروگرام ’آف دی ریکارڈُ‘ پر وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی فیصل واؤڈا، مسلم لیگ نواز کے سینیٹر محمد جاوید عباسی اور پیپلز پارٹی رہنما قمر الزمان کائرہ بطور مہمان مدعو تھے۔

پروگرام کا اصل مدعا تو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی علالت تھا لیکن فیصل واؤڈا سے ابتدائی سوال کیا گیا کہ ان کے خیال میں نواز شریف بیمار ہیں یا نہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے دن سے اس بات پر قائل ہیں کہ نواز شریف بیمار نہیں بلکہ وہ اس لئے باہر ہیں کیونکہ وہ مؤقف پر ڈٹے نہیں اور مریم نواز نے ٹوئٹر بند کر دیا ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی سیاسی فائدہ، یا کوئی ڈیل ممکن ہوگی۔ اس کے بعد وفاقی وزیر نے ایک فوجی بوٹ اٹھایا اور کیمرے کے سامنے میز پر رکھتے ہوئے کہا کہ آج کی مسلم لیگ نواز ’ووٹ کو عزت دو‘ نہیں بلکہ ’بوٹ کو عزت دو‘ کے بیانیے پر کھڑی ہے۔ جاوید عباسی اور قمر الزمان کائرہ نے بطور احتجاج اس پروگرام سے واک آؤٹ کر دیا لیکن اس سے قبل کائرہ صاحب یہ باور کروانا نہیں بھولے کہ جو کچھ فیصل واؤڈا صاحب کر رہے ہیں، اس سے پاکستانی افواج کی بدنامی ہو رہی ہے، کیونکہ وزیرِ موصوف کی اس حرکت سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ آرمی ایکٹ ترمیم میں اپوزیشن جماعتوں کی حمایت حکومتی جماعت کے کہنے پر نہیں تھی، بلکہ فوج کے کہنے پر کی گئی تھی۔یہ پورا پروگرام بوٹ میز پر رکھ کر کیا گیا۔

کاشف عباسی صاحب کو بھی یہ احساس نہ ہوا کہ یہ صرف پاکستان کی افواج اور سیاسی جماعتوں کی بدنامی نہیں ہو رہی، پاکستان کا میڈیا بھی اس میں بے عزت ہو رہا ہے۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فیصل واؤڈا نے آج پانچ سال قبل پارلیمنٹ میں تحریکِ انصاف کی ہونے والی اس بے عزتی کا بدلہ لے لیا ہے جو خواجہ آصف نے ’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘ کہہ کر کی تھی۔ فیصل واؤڈا نام تو صرف مسلم لیگ نواز کا لے رہے تھے، لیکن ایک پنجابی محاورے کے مطابق "کہنا دھی نوں، سنانا نوں" والی بات بھی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ آج فیصل واؤڈا نے اپوزیشن جماعتوں کو ہی شرمندہ نہیں کیا، انہوں نے پاکستانی سیاست کے پورے نظام کو ننگا کر کے رکھ دیا ہے۔

ان کے انداز سے صاف واضح تھا کہ وہ اپنی جماعت کی اسی حالت سے مکمل طور پر سمجھوتہ کر چکے ہیں جس کا طعنہ وہ اپوزیشن جماعتوں کو دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملے میں اصولی مؤقف اپنایا اور پھر اس پر ڈٹ گئے۔

کاشف عباسی نے ان سے پوچھا کہ ایکسٹنشن پر عمران خان ماضی میں ایک بالکل مختلف رائے رکھتے تھے لیکن آج انہوں نے ایکسٹنشن دے دی ہے تو فیصل واؤڈا کا جواب تھا کہ اگر ملک میں جنگ شروع ہو جائے تو اس میں میں کیا کر سکتا ہوں۔

اس جملے پر کاشف عباسی نے یہ کہہ کر پروگرام ختم کر دیا کہ اس بارے میں بحث کرنے کے لئے وقت بہت کم ہے۔ حالانکہ اتنا وقت پروگرام میں موجود تھا کہ وہ پوچھ سکتے کہ ’کیہڑی جنگ؟‘ لیکن انہوں نے بھی اسی پر اکتفا کیا کہ پروگرام ہی کو ختم کر دیا جائے۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو 14 جنوری 2020 کو اے آر وائے پر نشر ہونے والا پروگرام ’آف دی ریکارڈ ود کاشف عباسی‘ ایک تاریخی پروگرام تھا جس نے اس ملک کی سیاست کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ کر ثابت کر دیا ہے کہ حکومت، اپوزیشن، میڈیا اور پاکستان کے ریاستی ادارے سب کے سب اس حمام میں ننگے ہیں۔

چند روز قبل لاہور تھنک فیسٹ کے موقع پر مسلم لیگی رہنما خرم دستگیر خان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کے لئے بل کے وقت اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں نے اپنی تجاویز تیار کی تھیں لیکن اچانک انہیں بھی نہیں پتہ چلا کہ کیا ہوا اور پیپلز پارٹی کی جانب سے ترامیم واپس لے لی گئیں جب کہ مسلم لیگ نواز کی طرف سے بھی پیپلز پارٹی کے اس فیصلے پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔

فیصل واؤڈا یقیناً مضطرب ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن نے ’بوٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ اپنا کر ان کے حق پر ڈاکہ مارا ہے۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے فیصل واؤڈا اور ان کی جماعت مشترکہ صفحے پر ہونے پر انتہائی فخر کا اظہار کرتی تھی، لیکن اب اس کو نظر آ رہا ہے کہ نہ صرف باقی لوگ بھی اس صفحے پر آ چکے ہیں بلکہ وہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ تحریکِ انصاف کو کچھ دنوں میں شاید صفحے سے نیچے دھکا دینے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔ ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کابینہ سے باہر آ چکے ہیں، طارق بشیر چیمہ صاحب نے بھی جٹ دا کھڑاک دکھاتے ہوئے کہا ہے کہ عوام پوچھتی ہے کہ وزیر اعظم پنجاب سے کون سا بدلہ لے رہے ہیں، جی ڈی اے اور بی این پی مینگل بھی پارٹی اجلاس بلا رہے ہیں۔ مسلم لیگ نواز مسلسل ان ہاؤس تبدیلی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ گذشتہ روز ایک پروگرام میں صحافی عارف حمید بھٹی نے خبر دی کہ وزیر اعظم عمران خان یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ اگر معاملات ان ہاؤس چینج کی طرف گئے تو وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے لیکن حکومت نہیں چھوڑیں گے۔

یہ سب اسی panic کی طرف اشارہ ہے جو اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مشترکہ صفحے پر آنے کی وجہ سے حزبِ اقتدار کی صفوں میں پھیلا ہوا ہے۔ فیصل واؤڈا نے آج جو کچھ کیا ہے، یہ شاید پی ٹی آئی کے ’نظریاتی‘ ہونے کی طرف پہلا قدم ہے، جس پر اسے خوش آمدید کہنا چاہیے۔
مزیدخبریں