پاکستان پیپلز پارٹی کے ادوار میں ان مسائل کے حل کےلیے عمائدین آگے آئے اور نوجوانوں نے انتظامیہ کے خلاف مزاحمت کی، بدلے میں مسائل حل کرنے کے بجائے احتجاج کرنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا اور نوجوان کئی سالوں تک کورٹ کچہری کا چکر کاٹتے رہے۔ یہ مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں ان ہی نوجوانوں کو انتقام کا نشانہ بنانے کےلیے ان کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کے ساتھ شیڈول فورتھ میں ڈالا گیا۔
اب گلگت بلتستان میں تبدیلی سرکار کی حکومت ہے، دو دن پہلے اسی گاؤں یعنی سنگل، گیچ اور گوہر آباد کے نوجوان اپنے مطالبات کے حق میں سڑکوں پر آئے، پہلے انہوں نے انتظامیہ کو وقت دیا مگر مقررہ وقت میں ان کے مطالبات پر غور کرنے کی کسی نے زحمت نہیں کی جس کی وجہ سے عمائدین اور نوجوان ایک دفعہ پھر احتجاج کےلیے جمع ہوگئے۔ عمائدین نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ہم اپنی زرعی اراضیات کو آباد کریں گے اور پانی بجلی گھروں کو نہیں دیں گے۔ اسی دن ضلعی انتظامیہ نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کیں مگر مظاہرین سے مذاکرات تک ایف آئی آر منظر عام پر نہیں لائے۔
10 جنوری کو کمشنر گلگت ڈویژن نے ان سے مذاکرات کیے جس میں لوڈ شیڈنگ فری کے علاوہ باقی مطالبات یعنی زمینوں کے معاوضے، سکیل پانچ تک مقامی افراد کو ملازمتیں دینے کو تسلیم کیا گیا۔ ان مذاکرات کے ثالث کے طور پر غذر امن کمیٹی نے یقین دہانی کروائی کہ ان کے مطالبات حل ہونگے اور کسی کے خلاف کسی بھی قسم کی ایف آئی آر درج نہیں کی جائے گا۔
معاہدے سے پہلے امن کمیٹی اور مظاہرین کو اندھیرے میں رکھ کر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ انتظامیہ کی جانب سے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی سازش ہے۔
غذر ایک پرامن علاقہ ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہاں امن کمیٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب سنگل، گیچ اور گوہر آباد کے عمائدین پر ایف آئی آر درج کرنا تھا تو امن کمیٹی کو ثالث بنانے کی ضرورت کیونکر پیش آئی؟
غذر امن کمیٹی کے ذمہ داروں کو چاہیئے کہ فوراً اس ایف آئی آر کو ختم کرائیں اگر یہ ممکن نہیں ہے تو گیچ، سنگل اور گوہر آباد کے عوام سے معافی مانگ کر امن کمیٹی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کریں۔
مجھے لگتا ہے کہ یہاں انتظامیہ نے عوام اور امن کمیٹی کو اندھیرے میں رکھ کر فیصلہ دیا ہے۔ اس وقت امن کمیٹی کو اپنا موقف واضح کرنا چاہیے، امن کمیٹی کی معزز ممبران اس معاملے میں اپنا کردار ادا نہیں کریں گے تو وہ مزید متنازعہ ہونگے اور ان پر بھی سوالات اٹھیں گے۔
اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز کے دور حکومت میں معمولی معاملات پہ سیاسی کارکنوں پر ایف آئی آر اور شیڈول فورتھ کے تحت مقدمات بنتے رہے ہیں۔
اگرحلقے کے منتخب نمائندے ڈپٹی اسپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ کے دور حکومت میں بھی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات بنیں گے تو پھر ان میں اور دیگر سیاسی نمائندوں میں فرق نہیں رہے گا۔ ہم غذر حلقہ-2 کے نوجوانوں نے پارٹی، علاقے سے بالاتر ہوکر نذیر احمد ایڈووکیٹ کو منتخب اس لیے کیا تھا کہ اس سے پہلے معمولی معاملات پہ ہمارے عمائدین، سیاسی کارکنوں اور عام نوجوانوں کے خلاف انتظامیہ قانون کا بےدریغ استعمال کرتی رہی ہے۔
ہم سمجھتے تھے کہ نذیر احمد ایڈووکیٹ انتظامیہ کو لگام دیں گے اور قانون کا بےدریغ استعمال کو روکیں گے۔ جیسا کہ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ تحصیل پھنڈر ٹیرو میں ہستپال کو تالے لگانے کے واقعہ کے بعد ڈپٹی سپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ موقع پر پہنچے اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کے ساتھ ساتھ یہ حکم بھی دیا تھا کہ کسی شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور نہ ہی ہسپتال کو تالے لگانے والوں پہ ایف آئی آر درج ہوگی۔ ہمارے ذرائع کے مطابق اگر اس وقت ڈپٹی سپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ وہاں نہیں جاتے تو انتظامیہ نے ان مظاہرین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنی تھی۔
اب بھی ہم ڈپٹی سپیکر نذیر احمد ایڈووکیٹ سے اُمید کرتے ہیں کہ وہ فوراً اس معاملے کا نوٹس لے کر اس مقدمے کو ختم کرنے کے احکامات کے ساتھ ساتھ سنگل،گیچ اور گوہر آباد کے عوام کے جائز مطالبات حل کریں گے۔ بصورت دیگر اس حلقے بالعموم غذر کے نوجوان سیاسی معاملات میں شرکت سے پیچھے ہٹ جائیں گے اور اس علاقے میں سیاسی خلا کو پر کرنے کےلیے وہی لوگ آگے آئیں گے جو اجتماعی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔