اپنے وی لاگ میں ملک کی سیاسی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے وزرا کے درمیان لڑائیاں اب کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اگر کسی بحران کا شکار ہوتے ہیں تو کون کون سے پارٹی لیڈر یا وزرا ان کا ساتھ دیں گے؟ کیونکہ اس وقت وہ ہر طرف سے مشکل میں گھرے ہوئے ہیں۔ انھیں یہ محسوس ہونا شروع ہو چکا ہے کہ جب سے جنرل فیض گئے ہیں، ان کیلئے بحران بڑھ گیا ہے۔
رئوف کلاسرا نے گذشتہ روز پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی اندرونی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ پرویز خٹک اور حماد اظہر کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔ پرویز خٹک اکیلے نہیں بلکہ ان کے پیچھے خیبر پختونخوا کے مضبوط وزیروں کا گروپ ہے جو سمجھتے ہیں کہ گیس کی تقسیم کے معاملے میں ان کے صوبے کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے وزرا یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا صوبہ قدرتی گیس کے وسائل سے مالا مال ہے اور انھیں یہ صرف دو ڈالر میں پڑتی ہے تو وہ کیوں اس کیلئے 40 ڈالر ادا کریں۔ پرویز خٹک سمیت کئی وزرا اپنے تحفظات وزیراعظم عمران خان کے بھی گوش گزار کر چکے ہیں کہ ہم نے کل کو انتخابات کیلئے عوام کے درمیان جانا ہے، ہم ان معاملات میں ان کا کیسے سامنا کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ میں صوبہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزرا کی اب کوئی مضبوط لابی نہیں ہے۔ حماد اظہر سے قبل فواد چودھری اور فردوس عاشق اعوان کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ فردوس عاشق اعوان تو خود کہتی تھیں کہ پرائم منسٹر ہائوس میں اس وقت خیبر پختونخوا کی بیوروکریسی کا اثر ورسوخ ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان خیبر پختونخوا کے وزرا کو اس لئے اہمیت دیتے ہیں کیونکہ سپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی سپیکر سمیت کئی کا تعلق اسی صوبے سے ہے۔
رئوف کلاسرا کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک اپنے صوبے کے وزرا کو لیڈ کرکے ان کی بات کابینہ تک پہنچاتے ہیں۔ ان کا شکوہ ہے کہ ان کا صوبہ بہت زیادہ گیس پیدا کرتا ہے۔ اس پر سب سے زیادہ حق ہماری عوام کا ہے۔ ہمیں یہ فراہم کی جائے۔ ان کے پاس تقریباً 90 بلین روپے کے منصوبے ہیں لیکن حماد اظہر اسے منظور نہیں ہونے دے رہے۔