مصری خاتون کی ڈانس ویڈیو وائرل، شوہر نے طلاق دے دی

07:02 PM, 15 Jan, 2022

نیا دور
مصر میں ایک تیس سالہ خاتون کو شوہر نے ڈانس کی ویڈیو وائرل ہونے پر طلاق دے دی جس بر عوام کا شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ لیکن یہ پہلی بار نہیں کہ مصر میں سوشل میڈیا پر عورت کی ہتک عزتی کی مہم اشتعال انگیزی کا باعث بنی ہے۔

مصر میں 30 سالہ خاتون عایا یوسف کی ڈانس ویڈیو وائرل ہوئی جس کے نتیجے میں ان کے شوہر کی جانب سے انہیں طلاق دینے اور ان کے آجروں کو انہیں برطرف کر دینے پر اکسایا گیا۔ اس اشتعال انگیزی نے ملک میں خواتین کے حقوق کی پامالی پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

پرائمری اسکول کی ٹیچرجو کے تین بچوں کی ماں بھی ہیں، وائرل ہونے والی اس ویڈیو  میں دریائے نیل پر چلنے والی ایک کشتی پر سرڈھانپے ہوئے اور پوری آستینوں کی قمیض پہنے اپنے آفس کے ساتھیوں کے ساتھ رقص کرتی اور مسکراتی ہوئی دکھائی دے رہیں ہیں۔

لیکن آن لائن بڑے پیمانے پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو پر لوگوں کی متضاد رائے دیکھینے میں آرہی ہے۔ کچھ ناقدین ان کے اس ناچنے کے امر کو اسلامی معاشرے کی اقدار کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں - جب کہ دیگر اس معاملے پر ان کے ساتھ  یکجہتی اور مضبوطی سے کھڑے ہیں۔

حالیہ برسوں میں، مصر میں کئی ایسے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں جن میں خواتین کو سوشل میڈیا پر ہتک عزتی کی مہم کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس نے ذمہ داروں سے جوابدہی کے مشتعل مطالبات کو جنم دیا ہے۔ یہ معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب بنیادی حقوق کے علمبردار وں نے 2014 ء میں صدر عبدالفتاح السیسی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے قدامت پسند شمالی افریقی ملک میں آزادی کے خلاف وسیع کریک ڈاؤن سے خبردار کیا ہے۔

اس خاتون نے ایک خبر رساں ادارے کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ''وہ اپنے اس تفریحی دورے پر خوش تھیں اور ان کا رقص اسی خوشی کا اظہار تھا۔ ان کے کچھ ساتھی ان کا رقص میں ساتھ دے رہے تھے اور کچھ ہوا میں ہاتھ لہرا رہے تھے۔ انہوں نے کہا ہم سب ہی ناچ رہے تھے۔‘‘

لیکن یہ ویڈیو آن لائن شیئر ہوئی اور اس کے بعد، کچھ دیکھنے والوں نے اس پر سخت تبصرے کیے اور اسے ایک 'غیر مہذب ‘رویے کے طور پر دیکھا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر کے ایک صارف جہاد القلوبی نے کہا کہ اس استانی کا یہ عمل 'باعثِ شرم‘ ہے۔  ایک اور صارف احمد البحیرے نے لکھا کہ ایک شادی شدہ خاتون یوں بیہودہ  طریقے سے کیسے رقص کر سکتی ہے۔

ایک سروے کے اعداد و شمار کے مطابق  یہ عوامی رائے ایک ایسے ملک میں پائی جاتی ہے جہاں 2019 ء میں 18 سے 39 سال کے درمیان کی 90 فیصد خواتین کو حراساں کیا گیا۔ اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد قاہرہ کے شمال مشرق میں واقع  داکاہلیا کے خطے میں جہاں عایا یوسف کو نوکری سے برطرف کیا گیا تھا مصری محکمہ تعلیم نے اس ٹیچر کو ڈسپلینری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔  لیکن اس کے بعد عوام کے شدید احتجاج کے نتیجے میں اس ہفتے ان کی نوکری بحال کر دی گئی ہے۔

مصر میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے سربراہ نہاد ابوالقسمان نے اس ٹیچرکا دفاع کیا اور انہیں ملازمت کی پیش کش بھی کر دی ہے۔ قسمان نے طنزیہ انداز میں کہا، ''ہم عدالت سے رقص کے متعلق بنائے گئے درست قوانین کے بارے میں جوابات طلب کریں گے تاکہ خواتین ان قوانین کے مطابق اپنے بھائی اور بیٹوں کی شادیوں یا سالگرہ میں ناچ سکیں۔‘‘



اس خاتون کی ویڈیو وائرل ہونے کے باعث ان کے خاوند کی طرف سے انہیں طلاق دینے کے معاملے پر مصری اداکارہ سمیہ الخشاب کا کہنا ہے کہ یہ ردِعمل اس معاشرے کے دوہرے معیارات کی عکاسی کرتا ہے۔ خشاب کا  مزید کہنا ہے کہ مرد اپنی بیویوں کا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔ انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ،''ایسی بہت سی خواتین ہیں جو اپنے شوہروں کا ساتھ دیتی ہیں جب وہ خراب حالات کا شکار ہوتے ہیں یا جیل چلے جاتے ہیں تب بھی ان کی بیویاں ان کو چھوڑ کر نہیں جاتیں۔‘‘

عایا یوسف نے مصر کے خبرساں ادارے الوطن کو بتایا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کے ان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر کس نے لگائی لیکن وہ ان لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کرنا چاہتی ہیں جنہوں نے انہیں بدنام کرنے کی کوشش کی اور ان کا گھر برباد کیا۔ لیکن یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مصر میں کسی آن لائن شیمنگ، اشتعال انگیزی کا باعث بنی ہے۔

مصر ایک زمانے سے بیلی ڈانس کے آغاز کی وجہ سے جانا جاتا رہا ہے لیکن حال ہی میں وہاں کئی بیلی ڈانسرز اور پاپ گلوکاراؤں کو ان کے آن لائن مواد کے غیر مہذب اور روایات کےخلاف ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مصر کے آبائی رقاصوں کی کمیونٹی مختصر ہوتی جارہی ہے۔ جس کی بڑی وجہ اس پیشے کی بڑھتی ہوئی بدنامی ہے کیونکہ ملک پچھلی نصف صدی کے دوران زیادہ قدامت پسند ہو گیا ہے اور آزادی کے خلاف وسیع پیمانے پر کریک ڈاؤن دیکھنے میں آرہا ہے۔
مزیدخبریں