سپریم کورٹ نے انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) کی الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی جبکہ پی ٹی آئی نے پشاور ہائیکورٹ سے بھی اپنی درخواست واپس لے لی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ کا حصہ تھے۔
سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت میں کہا کہ پاکستان کی جمہوریت اور بقا کی خاطر عوام میں جانا پسند کریں گے۔ ہم 25 کروڑ عوام کی عدالت میں جانا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ کی بہت مہربانی، بہت شکریہ۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ مجھے ہدایات ملی ہیں کہ درخواست واپس لے لی جائے۔ ہم آپ کی عدالت میں صاف اور شفاف انتخابات اور لیول پلینگ فیلڈ کے لیے آئے تھے۔ آپ کے فیصلے سے ہماری 230 نشستیں چھین لی گئیں۔ کسی کو ڈونگا، کسی کو گلاس دے دیا گیا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ نے 13 جنوری کی رات 11:30 پر ایسا فیصلہ سنایا جس سے تحریک انصاف کا شیرازا بکھر گیا۔ ہم اب کیا توقع کریں کہ ہمیں لیول پلیئنگ فیلڈ ملے گی۔ ہم نے جس جماعت سے اتحاد کیا اس کے سربراہ کو اٹھا لیا گیا اور پریس کانفرنس کروائی گئی۔اتحاد کرنے پر بھی اب ہم پر مقدمات بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
وکیل نے کہا کہ آپ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے لوگ آزاد انتخابات لڑیں گے۔ عدالت کے فیصلے سے جمہوریت تباہ ہو جائے گی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہمارا فیصلہ ماننا ہے مانیں نہیں ماننا تو آپ کی مرضی۔ بار بار کہا تھا کہ دکھا دیں انٹرا پارٹی انتخابات کا ہونا دکھا دیں۔ آپ کو فیصلہ پسند نہیں تو کچھ نہیں کر سکتے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ پر ہم نے حکم جاری کیا تھا۔ عدالت حکم دے سکتی ہے حکومت نہیں بن سکتی۔ بیرسٹر گوہر کے معاملے پر پولیس اہلکار معطل ہوگئے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہمارا کام انتخابات قانون کے مطابق کروانا ہے۔ الیکشن کا معاملہ ہم نے اٹھایا۔ پی ٹی آئی کی درخواست پر 12 دن میں تاریخ مقرر کی۔ الیکشن کمیشن کہتا رہا پارٹی انتخابات کرائیں لیکن نہیں کرائے گئے۔ کسی اور سیاسی جماعت پر اعتراض ہے تو درخواست لے آئیں۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کردی۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی رہنما لطیف کھوسہ نے کہا کہ تحریک انصاف کو جلسے جلوس نہیں کرنے دیے گئے۔ جو پی ٹی آئی رہنما جلسہ کرنے کی کوشش کرتا اس کے گھر کو اڑا دیتے ہیں۔ مسمار کر دیتے ہیں۔ اس کا کاروبار بند کردیتے ہیں اور اغوا کرکے اس کو پابند سلاسل کردیا جاتا ہے۔ ہم نے رٹ دائر کر کے کئی امیدواروں کی جان چھڑائی۔ اس کے بعد ہم سپریم کورٹ میں گئے کہ آپ نے کیسا حکم دیا تھا 22 دسمبر 2023 کو کہ سب کو شفاف الیکشن اور لیول پلیئنگ فیلڈ دی جائے۔ ہم سپریم کورٹ میں گئے تو ہمیں کہا گیا کہ آئی جی اور چیف سیکریٹری اور ایڈوکیٹ جنرل پنجاب کو بلائیں۔ یہ لوگ آئے اور کہا کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔ یعنی اس سے بڑا مذاق کیا ہوسکتا ہے کہ میرے بیٹے کو گرفتار کر لے پابندسلال کیا گیا جو سپریم کورٹ کا وکیل بھی ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس کے بعد ہمیں بلے کا نشان بھی نہیں دیا گیا۔ الیکشن کمیشن اتنا بددیانت اور بدنیت ہے کہ عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جیل میں جاکر دیتے ہیں۔ عین الیکشن کے موقع پر تحریک انصاف سے نشان چھین لیا جاتا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ نے ہمیں بلے کا نشان واپس کیا تو اس کے خلاف الیکشن کمیشن دوبارہ سپریم کورٹ میں گیا پھر تحریک انصاف سے بلا چھین لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے حکم کے مطابق 20 دن میں الیکشن کروائے ہیں۔ 13 لوگ پی ٹی آئی کے ممبرز ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے جھوٹ بولا۔ اکبرایس بابر عمران خان کے ادنی سے کارکن کے برابر بھی نہیں ہیں۔ دوسری جماعتوں کے لیے ایسا کیوں نہیں ہوتا۔ کیا بلاول بھٹو، آصف علی زرداری یا نواز شریف کے مقابلے میں کسی پارٹی کارکن نے الیکشن لڑنا چاہا؟
اہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس سے یہی عرض کیا ہے کہ کیا یہی لیول پلیئنگ فیلڈ ہے کہ ایک جماعت کو نشان ملا ہوا تھا۔ آپ نے ساڑھے 12 بجے نشان واپس لے لیا۔ الیکشن کمیشن نے ہمارے امیدواروں کو آزاد تصور کرتے ہوئے کسی کو مور دے دیا۔ کسی کو فاختہ دے دی۔ کسی کو گھڑیال دے دیا۔ پی ٹی آئی کو 230 مخصوص نشستوں سے محروم کیا گیا۔