’پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ‘ کی گردان: 1959 سے 2020 تک کچھ نہیں بدلا

02:04 PM, 15 Jul, 2020

علی وارثی
پاکستان میں اکثر ہر چیز کو ’تاریخ میں پہلی مرتبہ‘ کا خوشنما جامہ پہنا کر عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ تاریخ کیونکہ یہاں پڑھائی جاتی نہیں اور عوام کو ایک خاص سکیم کے تحت حقائق سے دور رکھنے کا انتظام آزاد میڈیا کے ڈھکوسلے کے ذریعے کیا گیا ہے، لہٰذا نوجوان اکثر ان باتوں میں آ بھی جاتے ہیں۔ گذشتہ کئی ماہ سے حکومتی وزرا کی جانب سے ایک گردان جاری ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کوئی حکومت ہے جو تمام کرپٹ، چور، لٹیروں کو پکڑ کر ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر رہی ہے۔ ابھی دو ہی روز پہلے وفاقی وزیر برائے پانی کے ذخائر فیصل واؤڈا نے کاشف عباسی کے پروگرام میں پھر یہی منتر دہرایا۔

دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے اپنے وزرا کے خلاف آئے روز کرپشن کے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں۔ کبھی آٹا اور چینی سکینڈل، کبھی ان میں دی جانے والی سبسڈی کا معاملہ، کبھی پٹرول کا سکینڈل تو کبھی ایف بی آر میں Out of turn چیئرمین کے اپنے کلائنٹس کو ٹیکس ریفنڈ دیے جانے کے سوالات۔ جو وزرا ہیں، ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی اور جو پارلیمانی نظام سے باہر رہتے ہوئے حکومت کی اپنی رپورٹ کے مطابق کرپشن کے مرتکب ہوئے ہیں، وہ بڑی تسلی سے لندن جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور حکومت ان کو روک نہیں پاتی۔

لیکن کیا اپوزیشن کے خلاف بھی یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں احتساب کا نام لیا جا رہا ہے؟

تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کے تمام مقبول سیاستدانوں کو کرپشن کے الزامات لگا کر سیاسی عمل سے باہر کیا گیا لیکن یہ بھی اسی تاریخ سے ثابت ہے کہ ان کرپشن کیسز کی وجہ سے ان کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ خود عمران خان ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ وہ جنرل مشرف کی حمایت محض اس لئے کر رہے ہیں کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کو باہر رکھیں گے۔

جنرل مشرف کے ریفرنڈم (2002) میں ان کے حق میں ووٹ ڈال کر باہر آنے کے بعد عمران خان نے Associated Press سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جنرل مشرف کی حمایت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کو باہر رکھیں گے جن کو نہ ہماری عدالت اور نہ ہی الیکشن کمیشن باہر رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ چار مرتبہ یہاں حکومتیں کرپشن کے الزامات پر ہٹائی گئی ہیں، ہر بار یہی سیاستدان پارلیمنٹ میں واپس آ جاتے ہیں۔

یاد رہے کہ بعد ازاں کرپشن کیسز کی بنیاد پر مقبول سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں نقب لگائی گئی اور ان میں سے جو جو سیاستدان مسلم لیگ ق یا پیپلز پارٹی پیٹریاٹ میں شامل ہوتا گیا، اس پر سے کرپشن کے مقدمات حیرت انگیز طور پر ختم ہوتے رہے۔ سابق لیفٹننٹ جنرل شاہد عزیز ریکارڈ پر ہیں کہ ایک دن جنرل مشرف نے نیب کے سربراہ کو کہا کہ وہ احتساب پر ہاتھ ذرا ڈھیلا رکھیں۔ نیب سربراہ جنرل سید محمد امجد نے اس پر استعفا دے دیا لیکن تب تک جنرل مشرف کو ایک ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ انہی کرپٹ سیاستدانوں کی کرپشن پکڑنے کے نام پر میسر آ چکی تھی۔ احتساب کے نام پر صرف اپنے اقتدار کو محفوظ بنایا گیا۔

لیکن یہ بھی پہلا موقع نہیں تھا جب سیاستدانوں کے احتساب کے نام پر حکومتوں کو ہٹایا اور بنایا گیا ہو لیکن حقیقت میں ان کے خلاف کچھ بھی نہ کیا گیا ہو۔ ذرا اس ویڈیو میں سنیے کہ جنرل ضیاالحق کیا کہہ رہے ہیں اور ان کے جواب میں بینظیر بھٹو کیا کہتی ہیں۔ 90 دن کے وعدے اور احتساب کے دعووں کے جوابات بھی آج سے کتنی مماثلت رکھتے ہیں۔


5 جولائی کو میں صرف ایک مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا اور وہ سیاسی حکومت کو بحال کرنا تھا، یہ میرا واحد ہدف تھا، اور اب بھی یہی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے میں 90 دن میں ایسا نہ کر سکا جو کہ میرا شروعات میں پلان تھا۔ لیکن ہدف اب بھی وہی ہے کہ جلد از جلد سولین اور سیاسی حکومت کو بحال کیا جائے، یہ ایک ہی مقصد ہے۔

سوال: لیکن جن حالات میں بھٹو صاحب پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے، ایسے میں ان کو سزا ہو بھی گئی، تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس سے ملک میں ان کی سیاسی مقبولیت میں کوئی کمی آئے گی؟

جواب: میرا خیال ہے، بالکل ایسا ہے۔ کم از کم ایک بات تو طے ہے کہ 30 سال میں پہلی مرتبہ ہم یہ ثابت کر دیں گے کہ سیاستدان بھی دوسروں ہی کی طرح اپنے افعال کے لئے جوابدہ ہیں۔ اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ ایک سیاستدان اپنی ساکھ کو بچانے کے لئے ایک عام آدمی کی طرح ملک کے قانون کے سامنے کھڑا ہوگا۔

بینظیر بھٹو: وہ لوگوں کو کوڑے لگا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسلامی طریقہ ہے لیکن میں واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ اسلام میں کوڑے لگانے کا مقصد صرف شرم دلانا ہے لیکن جس انداز میں انہوں نے لیاری میں دو لڑکوں کو کوڑے لگائے، اتنی شدت سے کہ تین دن تک ان کا خون بہتا رہا۔

جنرل ضیا: کوئی مجھے مکمل وفاداری نہیں دے گا جب تک کہ میں بزورِ بازو یہ حاصل کر لوں۔ اور ان سخت سزاؤں کی ایک وجہ یہ تھی کہ لوگ ہماری طاقت کو مانیں اور انہیں احساس ہو کہ اگر انہوں نے کچھ غلط کیا تو انہیں سزا ملے گی، اور سخت ترین ملے گی۔ کوڑے مارنے کی وجہ وہی ہے۔ اور یہ ایک اسلامی سزا بھی ہے۔

سوال: ظاہر ہے کہ اس وقت آپ کے لئے بہت مشکل ہوگا کہ آپ اپنے والد کے جذبات کی بالکل درست تشریح کر سکیں لیکن آپ کے خیال میں وہ کون سی خطائیں ہوں گی جو وہ خود سمجھتے ہوں گے کہ انہوں نے ماضی میں کیں؟

بینظیر بھٹو: شاید، جنرل ضیا کو آرمی چیف لگانے کا فیصلہ۔۔۔

اور یہ بھی پہلی مرتبہ نہیں تھا۔ جنرل ضیا سے پہلے جب جنرل ایوب خان نے 1958 میں ملک پر قبضہ کر کے پہلا مارشل لا لگایا تو تب بھی اس نے سیاستدانوں کے خلاف ایبڈو جیسے قوانین متعارف کروائے تھے۔ یہی وہ قانون تھا جس کے تحت پاکستان کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کو سیاست سے فارغ کیا گیا۔ 3978 سیاستدانوں کو مشرقی پاکستان اور 3000 سیاستدانوں کو مغربی پاکستان سے سیاسی عمل سے کرپشن ہی کے نام پر باہر کر دیا گیا۔ ان سیاستدانوں میں شیرِ بنگال مولوی فضل الحق بھی شامل تھے جنہوں نے 1940 میں قراردادِ پاکستان پیش کی تھی۔ اور حسین شہید سہروردی بھی، جنہیں جناح کا سپاہی کہا جاتا تھا۔ حسین شہید سہروردی کے بارے میں وہ خود بھی کہا کرتے تھے کہ پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازوؤں کے درمیان ایک پی آئی اے پل کا کردار ادا کرتی ہے، اور ایک میں۔ ان کو کرپشن کے نام پر سیاسی عمل سے باہر کر کے ایوب خان نے عوامی لیگ کی قیادت کو یقین دلا دیا کہ مشرقی پاکستان کے عوام مغربی پاکستان سے اپنے حقوق موجودہ نظام میں رہتے ہوئے نہیں لے سکتے۔ چند سال بعد ہی شیخ مجیب کے چھ نکات سامنے آئے تھے۔ یاد رہے کہ شیخ مجیب کی وجہ سے پاکستان میں ہمیشہ سے ایک گالی سمجھی جانے والی عوامی لیگ 1949 میں حسین شہید سہروردی نے ہی قائم کی تھی۔

یہ ہے ہماری وہ تاریخ جسے جھٹلایا جانا ممکن نہیں۔ افسوس کہ سیاستدانوں کو آج بھی کرپشن کے نام پر سیاسی عمل سے باہر کرنے کی خواہش موجود ہے۔ الزامات بھی وہی ہیں، جوابات بھی وہی ہیں۔ یہاں تک کہ ’پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ‘ کی گردان بھی وہیں کی وہیں ہے۔
مزیدخبریں