اب تازہ ترین صورتحال میں ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے رکن قومی اسمبلی اور پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی کو وفاقی وزیر برائے آبی وسائل بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ کابینہ میں مسلم لیگ (ق) کے طارق بشیر چیمہ بھی وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ و تعمیرات ہیں۔ یہ سب اچانک سے نہیں ہوا۔ 2018 میں موجودہ ہائبرڈ نظام وجود میں آنے کے بعد ق لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان اسی ستر سال پرانے سیاسی انتظام کے فارمولوں کے مطابق اقتدار کی ان ہاؤس ایڈجسٹمنٹ ہوئی تھی جیسے کہ ہمیشہ سے کنگز پارٹیاں آمرانہ ادوار میں کرتی ہیں۔ لیکن پھر اندرون خانہ معاملات اوپر نیچے ہوتے رہے۔ یہ واضح ہے کہ ق لیگ ہمیشہ تحریک انصاف کو دباؤ میں لا کر ہی اپنی باتیں منواتی رہی ہے ورنہ اس کے بغیر تو خان صاحب اور ان کی جماعت کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔
ابھی اقتدار کے جھولے لیتے ہوئے ان کو خاص وقت نہ ہوا تھا کہ ان کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ یہ اختلافات حکومت کے پہلے سال سے شروع ہو گئے۔ کئی بار وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ق لیگ کے تحفظات دور کرنے میں ناکامی کے بعد معاملات لے کر وزیر اعظم عمران خان کے پاس گئے۔ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب اور سپیکر پنجاب اسمبلی کی ملاقاتوں کی اندرونی کہانیوں کا بھی انکشاف ہوتا رہا ہے۔ جس میں یہ معلوم ہوتا تھا کہ یہ مسائل کس نوعیت کے ہیں۔ یاد رہے کہ 2019 میں چوہدری پرویز الٰہی نے عثمان بزدار سے شکایت کی کہ پی ٹی آئی قیادت سے جو معاملات طے ہوئے تھے، ان پر عمل نہیں کیا جا رہا ساتھ ہی مرکز اور پنجاب میں ق لیگ کو 2، 2 وزارتیں ملنے پر بھی اتفاق ہوا تھا اور یہ وعدہ بھی تاحال پورا نہیں ہوا۔ دورانِ ملاقات وزیر اعلیٰ پنجاب نے معاملات سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم سے بات کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ پرویز الٰہی نے عثمان بزدار سے کہا کہ آپ کے والد سے میرے ذاتی تعلقات تھے، پھر بھی معاملات ٹھیک نہیں چل رہے۔ یہ لڑائیاں تب زیادہ شدت اختیار کر گئی تھیں جب گذشتہ سال وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے ق لیگ میں فارورڈ بلاک بنانے کے بیان پر چوہدری مونس الٰہی نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پی ٹی آئی سے اتحاد ختم بھی ہو سکتا ہے۔
تاہم، سب سے دلچسپ وہ موڑ تھا جب پی ڈی ایم کے غلغلے کے دباؤ میں وزیر اعظم عمران خان 2018 کے بعد پہلی دفعہ چوہدریوں کے در پر جا پہنچے تھے۔ اب کی بار بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان دباؤ میں محسوس ہوتے ہیں۔ اسی لئے اچانک سے شہباز شریف کی گرفتاری کی باتیں ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ یاد رکھیے کہ شہباز شریف ہی وہ سیاستدان ہیں جن میں عمران خان کا متبادل بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ اس وقت ملکی داخلی و خارجی صورتحال ایسے ملک کے مستقبل سے جا جڑی ہے جس کا اپنا مستقبل ابھی واضح نہیں ہے۔ ایسے میں بد ترین گورننس، سیاسی عدم استحکام، معاشی ابتری کے ساتھ ساتھ خارجہ و داخلی سلامتی کے حوالے سے ایسی بے یقینی میں اگلے الیکشن میں جانے سے قبل عمران خان اپنی بیساکھیوں کو دوبارہ سے مرمت کر کے ان کے فیض سے فیض یاب رہنا چاہتے ہیں۔
مگر پھر سوال وہی ہے کہ آخر تحریک انصاف وہ کون سے وعدے ہیں جنہیں پورا کرنے کے لئے اقتدار میں آئی ہے۔ اس این آر او نہیں دوں گا کا کیا بنا؟ وہ پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کے خلاف سینہ سپر ہوا عمران کیا ہوا؟ وہ سب دعوے کہ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکوں گا، ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ نہ صرف چوہدریوں پر سے آج تمام نیب کیسز خارج ہو چکے ہیں بلکہ ان کے خاندان کا یہ ہونہار چشم و چراغ اب وفاقی کابینہ کا حصہ بھی بن چکا ہے۔ گجرات کے چوہدریوں نے عمران خان کے جبڑوں سے ایک وزارت چھین لی ہے۔ ایک اور وعدہ یہاں یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے کہ کابینہ چھوٹی رکھنی تھی۔ اب تعداد 52 سے 53 ہو چکی ہے اور دو سال پڑے ہیں، کوئی بھی کسی بھی وقت علیحدہ ہونے کی دھمکی دے کر ایک وزارت مزید لے سکتا ہے۔ بیچارے خان صاحب تب بھی این آر او دینے کو مجبور ہوں گے۔ کیونکہ اب عوامی خدمت وغیرہ کا ڈھول تو بجانا بھی وہ آہستہ آہستہ چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اقتدار میں رہنا ہی اصل ٹارگٹ ہے، دیکھیے پورا ہوتا ہے یا وہ بھی سال ڈیڑھ سال قبل ہی خواب مٹی میں مل جاتا ہے۔