میں نواز شریف کو بہت بڑا مجرم سمجھتا ہوں٬ نواز شریف نے اس ملک کے جمہوری اور سیاسی کلچر کی دھجیاں اڑائی ہیں٬ لوٹ مار کا ہر چھوٹا بڑا الزام اس پر ہے٬ لیکن غدار وہ بھی نہیں٬ یہ ایک چھوٹے درجے کے کاروباری تھے٬ جو لوگ تھانیدار کو دیکھ کر ڈرتے تھے وہ لوگ آئی جی تعینات کرنے لگے٬ ملک کو تو لوٹنا تھا٬ مگر غدار وہ بھی نہیں٬ ضیاءالحق جیسا احسان فراموش آدمی بھی بھٹو صاحب کی دیانتداری پر انگلی نہیں اٹھا سکا٬ شہید ذوالفقار علی بھٹو باوقار طریقے سے تختہ دار پر چڑھ گئے٬ لہذا بھٹو کو غدار کہنے والوں کو کوئی شرم حیا ہونی چاہیے۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ ایک پوری نسل کو بذریعہ مغالطہ پاکستان یہ بیانیہ گھول کر پلادیا گیا ہے جبکہ ادھر ہم ادھر تم کے ’نعرے‘ کے خالق صحافی نے اپنے مرنے سے پہلے بارہا بتایا کہ یہ نعرہ نہیں بس ایک شہ سرخی تھی۔ یہ توخیر مگر دولھے شاہ کے چوہوں کی عقل والے اس ایک شہ سرخی کو جناح کے پاکستان کے دولخت ہونے کا سبب سمجھتے ہیں تو انھیں دولھے شاہ کے چوہے ہی کہاجاسکتا ہے۔ اب انکو کون بتلائے کہ سقوط ڈھاکہ کے طوفان کا پیش خیمہ ایک طوفان کے وقت اپنے ہموطنوں کا قتل عام کرنا تھا اور مملکت کا مالک بن بیٹھنا تھا تو وہ نفرت کے بوئے بیج تناور درخت بن چکے تھے۔ اور تو اوراقتدار کی ہوس میں سمندر پار سجنا دور دیا کے پاس جاکر وعدہ بھی تو اسی غاصب نے دیا تھا۔ لیکن بس اپنی ہر غداری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے بنایا گیا وہ بیانیہ آج بھی عقل سے پیدل مغالطہ پاکستان کے متاثرین کے لئے "تسلیم شدہ حقیقت" ہے۔
سو قارئین آپ سے بھی درخواست ہے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اور مطالعہ وسیع کرتے ہوئے تاریخ کو پہچانیں اور بھٹو کے احسانات کے لئے اسکا شکرگزار ہوں نہ کہ ان 90 ہزار محسن کشوں کے بنائے جھوٹوں کو سچ مانیں۔ بیانئے اور حقیقت کا فرق جان کر جئیں!