رانا تنویر کی زیر صدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں وزارت منصوبہ بندی کی آڈٹ رپورٹ 20-2019 زیر غور آئی۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ نیشنل لاجسٹکس سیل ( این ایل سی) نے کراچی گرین لائن بی آر ٹی ایس میں ایسکیلیٹرز کی تنصیب کیلئے ٹینڈر کے بغیر ٹھیکہ دیا، اس منصوبے پر 96 کروڑ روپے خرچ ہوئے، این ایل سی نے کام مکمل نہ ہونے کے باوجود ٹھیکیداروں کو زائد ادائیگیاں کیں، این ایل سی نے حبیب رفیق اور خان کنسٹرکشن سمیت کئی کمپنیوں کو 17 کروڑ 80 لاکھ روپے زائد ادا کیے۔
سیکریٹری منصوبہ بندی نے جواب دیا کہ این ایل سی برائے نام وزارت منصوبہ بندی کے ساتھ ہے، این ایل سی خود مختار ادارہ ہے، ہماری التجا ہے کہ این ایل سی کو وزارت منصوبہ بندی سے واپس لے لیا جائے، ہم اس ادارے کو نہیں سنبھال سکتے۔ این ایل سی حکام نے موقف اختیار کیا کہ کراچی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ ڈیولپمنٹ کمپنی نے شرط رکھی کہ صرف شینڈلر کے ایسکیلیٹرز لگانے ہیں، پپرا قانون ہمیں اس اقدام کی اجازت دیتا ہے، آڈٹ حکام نے ہمارے ایک انٹرنل خط کی بنیاد پر آڈٹ پیرا بنایا، ہمارے ایک خفیہ خط پر آڈٹ پیرا کیسے بنایا گیا۔
پی اے سی نے پپرا سے اس معاملہ پر رائے لینے کا فیصلہ کیا اور معاملہ کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
آڈٹ حکام نے مزید بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سی پیک پیکج ون میں ٹینڈر کے بغیر کئی ٹھیکے دیے گئے، ایل ای ڈی روڈ لائٹس، سڑک کی تعمیر کے لیے ٹینڈر کے بغیر ٹھیکے دینے سے 12 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ٹینڈر کے بغیر ٹھیکوں سے متعلق تمام کیسز کی ایک ماہ میں انکوائری کی ہدایت کی۔ این ایل سی حکام نے موقف اختیار کیا کہ این ایل سی ان علاقوں میں کام کرتی ہے جہاں کوئی کام کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا، ہمیں پپرا قوانین سے استثنیٰ دیا جائے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ہمیں ادراک ہے کہ پپرا قوانین میں ترمیم ہونی چاہیے۔ پی اے سی نے پپرا قوانین میں ترمیم کیلئے کابینہ ڈویژن کو خط لکھنے کا فیصلہ بھی کیا۔