آئینی مدت سے پہلے اسمبلی تحلیل کرنے کی صورت میں انتخابات 90 دنوں میں کرانا ہوں گے جب کہ آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد آئین کے مطابق انتخابات کا انعقاد 60 دنوں کے اندر ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری رائے ہے کہ اسمبلیوں کو قبل از وقت تحلیل کرنے کے بجائے انہیں اپنی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے۔
تجربہ کار سیاست دان نے کہا کہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری ہونے سے چند روز قبل اسمبلیوں کو تحلیل کرنا ایک کم مثالی تاثر پیدا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ارکان اسمبلی نے 13 اگست 2018 کو حلف اٹھایا۔اس اقدام سے اگلے انتخابات اسی دن ہونے چاہئیں جب اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریں۔
تاہم انہوں نے مزید کہا کہ ایک بار جب اسمبلی اپنی مدت پوری کر لے تو انتخابات 12 اکتوبر یا اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے 60 دن بعد کرائے جائیں۔
ان کا خیال تھا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے مزید 30 دن سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔
قانون اور آئین کے مطابق، الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے 60 دن کے اندر انتخابات کرانے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔
نگران سیٹ اپ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بخاری نے کہاکہ یہ وہ چیز ہے جس کا وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو مل کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔اگر دونوں نگران سیٹ اپ پر فیصلہ کرنے میں ناکام رہے تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی کو بھجوایا جائے گا۔
بخاری نے کہا کہ چونکہ پی پی پی کے چیئرپرسن اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ وفاقی کابینہ کا حصہ ہیں اس لیے امکان ہے کہ کسی بھی نگران سیٹ اپ پر وزیر اعظم ان سے مشاورت ضرور کریں گے۔