امریکہ کے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں اور چین کو اس وقت دنیا میں پرامن اور تجارتی شراکت کی نسبت سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ یہی چین پر دنیا کے اعتماد کا سبب ہے جو چین کو تیزی سے ترقی کی دوڑ میں نمایاں کامیابیاں دے رہا ہے۔ اگر ہندوستان چین کے ساتھ تجارت کے ساتھ ساتھ امریکہ کا سٹریٹجک پارٹنر بن سکتا ہے تو پھر ہم بھی پرامن تجارت میں چین، امریکہ اور ہندوستان تینوں کے ساتھ شراکت رکھ سکتے ہیں۔ ہندوستان کبھی بھی ایسے حالات میں ایسی شراکت سے پیچھے نہیں ہٹے گا جب وہ تیسری بڑی معیشت بننے کے خواب دیکھ رہا ہو کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی پیدا کر کے وہ کبھی بھی اپنے خوابوں کو تعبیر نہیں دے سکتا۔
ایک ساتھ شروع ہونے والے ہمارے سفر میں آج چین اور ہندوستان ترقی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں اور پاکستان کی یہ حالت ہے کہ ہم ایک قدم آگے جاتے ہیں تو دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ ہمارا سیاسی عدم استحکام ہے جس کی بنیاد ہمارا جمہوری نظام ہے جس کی بنیاد ہم اعلیٰ شعور اور اخلاقیات پر قائم نہیں کر سکے۔ ماؤزے تنگ کی کامیابی کے راز وہی تھے جو ہمارے قائد کے تھے جن میں عوام کی حکمرانی کو اولین ترجیح تھی اور یہی وہ راز تھے جو ماؤزے تنگ کی چین میں مقبولیت کا سبب بنے۔ ماؤزے تنگ نے چین میں ترقی کی بنیاد رکھی لیکن اسے ارتقاء شی جن پنگ نے دیا اور شی جن پنگ کی کامیابی اور مقبولیت کی وجہ ان کی ان تھک محنت ہے۔
شی جن پنگ نے اپنی زندگی میں ایک بڑے باپ کی اولاد ہوتے ہوئے وہ تکلیفیں دیکھیں جو عام شہری کو درپیش تھیں تو ان کے اندر وہ جذبہ جاگا جو چین کی آج کی جدید ترقی کا سبب بنا۔ مگر ہمارے ہاں نہ تو محمد علی جناح کے بعد کسی قائد کو وہ تجربات حاصل ہو سکے اور نہ ہی ہمارا وہ سفر شروع ہو سکا۔ آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے موجودہ قائدین میں سے بھی جنہوں نے مشکلات جھیلیں، جیلیں کاٹیں، ان کے اور سیاسی بہروپیوں کے رویوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ پاکستان اور چین میں فرق یہ بھی ہے کہ چین کے ماؤزے تنگ اور شی جن پنگ کو وقت بھی ملا اور قوم نے ان کا ساتھ بھی دیا مگر ہمارے قائد کو تو وقت ہی نہ ملا کہ ہمیں وہ غلامی کے دوسرے دور سے آزاد کروا پاتے اور ہمارے شی جن پنگ کا نہ قوم نے ساتھ دیا اور نہ وہ اپنے آپ کو طاقت کے قلعوں سے آزاد کروا پائے۔ شی جن پنگ کے خیالات ہیں؛
'خوشی آسمان سے نہیں ٹپکتی اور نہ ہی خواب بیٹھے بٹھائے پورے ہوتے ہیں۔ منزل تک پہنچنے کے لیے انسان کو سخت محنت اور انکسار سے کام لینا چاہئیے۔ میں محنت کو سب سے زیادہ معزز، شریفانہ، عظیم اور خوبصورت صفت سمجھتا ہوں'۔
اقتدار سنبھال کر شی جن پنگ نے اہم ترین قدم یہ اٹھایا کہ کرپٹ سرکاری افسروں اور پارٹی کے سیاست دانوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ 'شیروں سے لے کر مکھیوں تک کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا'۔ معنی یہ کہ کرپٹ لوگ کتنے ہی طاقتور اور بااثر ہوں، وہ اب قانون کے شکنجے میں ضرور آئیں گے۔ دراصل شی جن پنگ سمجھتے تھے کہ چین اسی وقت سیاسی، معاشی اور عسکری طور پر عالمی قوت بن سکتا ہے جب معاشرے میں اصول و قانون کی حکمرانی ہو اور وہ کرپشن کی لعنت سے پاک ہو جائے۔ صدر نے اپنے بااعتماد ساتھی وینگ قیشان کو اینٹی کرپشن مہم کا سربراہ بنایا اور انہوں نے بڑے زوردار انداز میں یہ مہم چلائی۔
2013 سے لے کر اب تک ایک لاکھ سے زائد لوگ کرپشن کے مقدمات میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ ان میں طاقت ور جرنیل، سرکاری افسر اور سیاست دان شامل ہیں۔ بعض کو جیل ہوئی اور بعض ملازمت سے برطرف کر دیے گئے۔ اس مہم نے شی جن پنگ کو چینی عوام میں بہت مقبول بنا دیا۔
صدر شی جن پنگ نے حکومت سنبھال کر سیاست، معیشت، عسکریت، امور خارجہ، معاشرت غرض اہم شعبہ ہائے زندگی میں اصلاحات متعارف کرائیں۔ عظیم الشان ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ شروع کیا کہ چین کے علاوہ ایشیا، روس اور یورپ بھی ترقی کر سکیں۔ پاکستان میں جاری سی پیک منصوبہ اسی منصوبے کا اہم جزو ہے۔ چینی صدر خواہ مخواہ بیرونی مسائل میں ٹانگ نہیں اڑاتے مگر چین کے مفادات کو تحفظ دینے کی خاطر چینی افواج کو جدید ترین اسلحہ مہیا کر رہے ہیں تاکہ وہ آنے والے برسوں میں ناقابل تسخیر قوت بن جائیں۔
2013 میں جب شی جن پنگ چین کے صدر بنے تو اسی سال نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بنے اور پھر سے ہماری ترقی کا سفر ایک ساتھ شروع ہوا اور چین نے پاکستان کے ساتھ اس سفر میں شراکت بھی کی جو سی پیک کی شکل میں تھی اور اس وقت اسے پاکستان کے لئے گیم چینجر کہا جانے لگا تھا۔ چین کی خوش قسمتی کہ وہاں ایک جماعتی جمہوریت تھی اور وہاں سیاسی استحکام کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو سکا مگر ہمارے ہاں حسب روایت ایک دفعہ پھر بین الاقوامی سیاست کی مرہون منت سیاست کے شائقین نے سیاسی انجینیئنرنگ شروع کر دی اور چین کے ساتھ ہماری کاروباری شراکت کو بھی داؤ پر لگا دیا۔ شی جن پنگ دو دفعہ تسلسل کے ساتھ چین کے صدر بنے اور چین کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ عوام نے ان پر اعتماد ہونے کے سبب تیسری دفعہ بھی آئین میں ترمیم کر کے 2022 میں ان کو ایک بار پھر صدر منتخب کر لیا اور کہا جا رہا ہے کہ اس طرح اگلے 10 سال ان کو شی جن پنگ کو ہی صدر رکھنے کا ارادہ ہے۔ کیونکہ عوام سمجھتے ہیں کہ وہ چین کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہماری بدقسمتی کہ ہم حالات کی نزاکت نہ سمجھ سکے اور اپنی ترقی کے سفر کو سبوتاژ کر کے اچھی خاصی ترقی کرتے ملک کو سیاسی لڑائی میں جھونک کر ناقابل تلافی نقصان پہنچا بیٹھے۔ ہم بغض نواز شریف میں ملکی ترقی کو بھی بھول گئے اور آج سودی قرضوں کی بھیک مانگ مانگ کر اپنا نظام حکومت چلانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ ہم جغرافیائی لحاظ سے چین کی ضرورت تھے اور وہ ترقی کے سفر میں ایک مخلص دوست ہونے کے ناطے ہماری مجبوری تھا مگر ہم نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے بھی نظرانداز کیا اور عالمی سطح پر اپنے اوپر اعتماد کو ضائع کر بیٹھے جسے اب بحال کرنے میں ہمیں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جس طرح چین کے عوام نے شی جن پنگ کا ساتھ دیا اسی طرح اگر پاکستانی عوام بھی نواز شریف کا ساتھ دیتے اور جس دن ہمارے ہاں طاقت اور عدل کے ایوانوں میں سازش کی گئی تھی اور نواز شریف نے سڑک کے ذریعے لاہور جانے کا ارادہ کیا تھا تو قوم کے پاس وقت تھا اپنے مستقبل کی خاطر ان کے ساتھ سڑکوں پر نکل آتے۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور آج چین اور پاکستان کی ترقی میں کوسوں کا فرق ہے مگر دل آج بھی اکٹھے دھڑک رہے ہیں۔
اب ہمیں چاہئیے کہ ماضی کی غلطیوں کو بار بار دہرانے کی بجائے آگے کی طرف دیکھیں، اپنے سیاسی ڈھانچے کو چین کے ساتھ ہم آہنگ بنائیں اور اصلاحات کے ذریعے سے سیاسی استحکام اور اس کے تسلسل کو یقینی بنا کر عالمی اعتماد کو بحال کریں۔ چین کی ترقی پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو جو چند چیزیں مشاہدے میں آتی ہیں جو مشترک ہیں جن میں بدعنوانی بھی سر فہرست ہے۔ موجودہ صدر شی کی سب سے بڑی کامیابی کا راز بدعنوانی کے خاتمے میں ہے۔ اگر ہم بھی حقیقی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں بھی کرپشن کے خاتمے کے لئے اصلاحات اور عملی اقدامات کے ذریعے سے اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا تب ہی ہم ترقی کا خواب پورا ہوتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں بھی کسی شی جن پنگ کی سوچ و عمل کی ضرورت ہے۔
اگر ہماری ضروریات، حالات، مفادات اور مقاصد اس قدر مشترک ہیں تو پھر سیاسی نظام کو بھی ہم آہنگ بنانے میں حرج ہی کیا ہے؟ کیوں نہ سب جماعتیں مل کر یک جماعتی اتحاد بنا لیں اور ایک میثاق معیشت و میثاق جمہوریت طے کر لیں تا کہ معاشی اور سیاسی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔ اگر تو ہمارے سیاست دان اور ذمہ داران مخلص ہیں تو پھر ان کو اپنے سیاسی مفادات کو پیچھے رکھتے ہوئے ایک ہی سیاسی اتحاد کے اندر اپنی سیاست کو محصور کر لینا چاہئیے تا کہ ہمارے اجتماعی مقاصد اور مفادات کو کوئی نقصان پہنچنے کا خدشہ نہ رہے اور ترقی کی دوڑ میں ہم بھی اپنے ہم عصرملکوں کے ساتھ شانہ بشانہ سر اٹھا کر چلتے ہوئے اپنی صلاحیتوں اور قدرتی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے آپ کو منوا سکیں۔