5 برس قبل نواز شریف کی لندن سے ابوظہبی کے راستے وطن واپسی کے دوران پیش آنے والے واقعات کی چشم دید گواہ عاصمہ شیرازی نے یوٹیوب پر اپنے وی-لاگ میں ان کی تفصیل سنائی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 13 جولائی 2018 کو نواز شریف کا کیس نیب عدالت میں چل رہا تھا اور جج بشیر چودھری اس کی سماعت کر رہے تھے۔ آج 5 سال بعد اسی احتساب عدالت میں عمران خان کے خلاف کیس کا آغاز ہوا ہے اور وہی جج عمران خان کا کیس سن رہے ہیں۔ اسے ہم مکافات عمل ہی کہہ سکتے ہیں۔
25 جولائی 2018 کے انتخابات کے بعد ملک میں عمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے مابین جو ون پیج بنا اس میں 13 جولائی 2018 کے دن کی خاص اہمیت ہے۔ پانچ برس قبل جس شخصیت کے لئے سٹیج تیار کیا جا رہا تھا آج وہی شخصیت خود الزامات کی زد میں ہیں۔ عدالت بھی وہی ہے، کیسز بھی کم و بیش ویسے ہی ہیں اور جج بھی وہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ملزم بدل گیا ہے۔ پانچ سال قبل نواز شریف خود پر لگائے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے تھے مگر کوئی ان کی بات پر یقین نہیں کر رہا تھا اور آج عمران خان بھی خود کو بے گناہ قرار دیتے ہیں۔
عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل آج ٹی وی کی جانب سے مجھے لندن جا کر نواز شریف کو کور کرنے کی ذمہ داری ملی۔ یہ وہ وقت تھا جب نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز علیل حالت میں ہسپتال میں داخل تھیں۔ نواز شریف سمیت کئی سیاسی شخصیات ہسپتال ہی میں موجود تھیں۔ اسی ہسپتال کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مجھے نواز شریف کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا جس میں ان کے صاحبزادے حسین نواز بھی موجود تھے۔
میں نے صحافتی ذمہ داری کے تحت نواز شریف کا نقطہ نظر ریکارڈ کیا۔ انتخابات کے دن قریب تھے اور اسٹیبلشمنٹ کو خبر پہنچ گئی کہ ہمارے چینل نے نواز شریف کا انٹرویو ریکارڈ کیا ہے۔ آج ٹی وی پر پریشر ڈالا گیا، چینل کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں اور نواز شریف کا انٹرویو آن ایئر ہونے سے پہلے ہی روک دیا گیا۔ تب تک ہم نواز شریف کے انٹرویو سے متعلق پرومو چلا چکے تھے۔
نواز شریف کے ساتھ ہی ہم لوگ لندن سے ابوظہبی پہنچے تو ہمیں بتایا گیا کہ نواز شریف کا جہاز روک لیا گیا ہے اور ابھی انہیں انتظار کرنا پڑے گا۔ اس جہاز میں میرے علاوہ کئی دیگر صحافی بھی موجود تھے۔ ان میں طاہر عمران، سکندر کرمانی، منیب فاروق، مرتضیٰ علی شاہ، اظہر جاوید، کوثر کاظمی، فریحہ ادریس، منیزے جہانگیر، عاصمہ چودھری، شاہد مسعود اور دیگر شامل تھے۔
ابوظہبی میں نواز شریف کی فلائیٹ بار بار تاخیر کا شکار ہوتی رہی۔ اسی دوران نواز شریف کے ساتھ بعض 'ذمہ دار حلقوں' کی اس معاملے پر بات چیت ہوتی رہی کہ آپ ابھی بھی وطن واپس آنے کا فیصلہ واپس لے لیتے ہیں تو کافی ساری چیزیں آپ کے حق میں بہتر ثابت ہو سکتی ہیں۔
یہ چہ مگوئیاں بھی چل رہی تھیں کہ نواز شریف کو جہاز میں ہی روکے رکھنے کے احکامات دیے جا چکے ہیں، وہ جہاز سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔ نواز شریف کے ہمراہ رمیزہ نظامی صاحبہ موجود تھیں جنہوں نے اعلان کیا کہ نواز شریف پریس کانفرنس کرنا چاہتے ہیں۔
چونکہ نواز شریف کو جہاز سے باہر آنے کی اجازت نہیں تھی اور ہم صحافیوں کو ان کے پاس جانے کی اجازت نہیں تھی اس لئے یہ پریس کانفرنس ٹیلی فون کے ذریعے ہوئی۔ میں نے جب ان سے سوال پوچھا تو انہوں نے الٹا مجھ سے پوچھ لیا کہ میرا انٹرویو کیوں نہیں چلایا گیا جس کے جواب میں میں نے انہیں بتایا کہ چینل پر پریشر تھا جس کی وجہ سے انٹرویو روکنا پڑا۔
یہ انٹرویو کرنے اور پھر رکوانے سے متعلق باتیں باہر آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے مجھے نشان عبرت بنانے کا فیصلہ کر لیا اور میرے خلاف ایک سوچی سمجھی مہم لانچ کر دی گئی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ نواز شریف کا جہاز روکنے پر ایک خاتون اینکر رو پڑی ہیں اور یہ میری ہی جانب اشارہ تھا۔ تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا تھا یہ محض افواہیں اڑائی جا رہی تھیں۔ ایک خاتون اینکر نے ایسی خبریں بھی پھیلائیں کہ میرا وہاں پہ جھگڑا ہو گیا ہے اس لئے مجھے ابوظہبی میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یوں نواز شریف کا انٹرویو کرنے پر میرے خلاف ایک منظم مہم شروع کر دی گئی تاکہ دیگر صحافیوں کو نواز شریف کا نقطہ نظر عوام کے سامنے لانے سے باز رکھا جا سکے۔ اس مہم کو فوجی اسٹیبلشمنٹ اور آئی ایس پی آر کی پوری آشیرباد حاصل تھی۔
پاکستان میں لینڈنگ سے تقریباً آدھا گھنٹہ قبل مریم نواز کا میں نے جہاز ہی میں انٹرویو کیا۔ اس میں انہوں نے بہت ساری باتیں کہیں۔ ڈان لیکس، آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا معاملہ اور پانچ سال میں جو جو کچھ ملک میں ہوتا رہا، مریم نواز نے ان تمام ایشوز پر کھل کر باتیں کیں۔ یہ انٹرویو آج بھی میرے پاس موجود ہے مگر چونکہ یہ انٹرویو آج ٹی وی چینل کی پراپرٹی ہے اس لئے اسے اب تک کہیں نہیں چلایا گیا۔
جب جہاز ایئر پورٹ پر لینڈ ہوا تو کئی اہلکار جہاز میں داخل ہونے کی کوشش کرنے لگے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں مگر جہاز کے عملے نے مجھے گرفتار ہونے سے بچا لیا۔ یہ تمام مناظر بھی میں نے موبائل فون پر ریکارڈ کر لیے جو اب تک میرے پاس موجود ہیں۔
نواز شریف کا انٹرویو کرنے اور ان کے ساتھ جہاز میں بیٹھ کر وطن واپس آنے کے جرم میں مجھے مارک کر لیا گیا اور اس کے بعد تین چار سال تک مجھے مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا۔ دو مرتبہ میرے گھر میں گھسنے کی کوشش کی گئی۔ مجھے دھمکیاں دی گئیں۔ کہا گیا کہ آپ کو رانا ثناء اللہ کی طرح بے آبرو کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کے سارے یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا کے لوگ اس میں شریک تھے اور میرے خلاف آئے روز جھوٹی کہانیاں گھڑی جاتی رہیں۔
میں اور میرے جیسے دیگر صحافی آزادی صحافت کے ساتھ کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔ آج اگر عمران خان مجھے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے لئے انٹرویو کے لئے بلائیں تو میں ان کا انٹرویو بھی کرنے کو تیار ہوں۔ صحافی کا کام واقعات کو کور کرنا ہوتا ہے اور ہم کسی سیاسی یا ذاتی وابستگی کے بغیر بھی لوگوں سے ملتے رہتے ہیں۔
پانچ سال قبل اسی روز یعنی 13 جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کو جہاز سے اترتے ہی اے ایس ایف کے اہلکاروں کی موجودگی میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔