پاکستان میں کب کب سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی گئی؟

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا آغاز جولائی 1954 میں ہوا جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر وزیر اعظم لیاقت علی خان کے خلاف سازش کے الزام کے بعد پابندی عائد کی گئی۔ میجر جنرل اکبر خان کی سرکردگی اور روس کی پشت پناہی سے تیار کی گئی اس سازش کو راولپنڈی سازش کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

04:35 PM, 15 Jul, 2024

نیوز ڈیسک

پاکستان کی مرکزی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ چند روز سے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، سات خون معاف کے نام سے ایک فلمی ٹریلر چلایا جارہا ہے، بتایا جارہا ہے کہ ہم ان ٹچ ایبل ہیں، بس اب بہت ہو گیا۔

عطاء اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی بدترین لیڈر ہے اس نے بہن بیٹیوں کو جیلوں میں ڈالنے کی روایات ڈالی ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف نے ایوان میں کہا ہم میثاق معیشت کرنے کو تیار کریں، ہماری دانشمندی کو ہماری کمزوری سمجھا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پی ٹی آئی کا کیس سپریم کورٹ کو بھیجا جائے گا، 9 مئی کے حملے، سائفر کے معاملے اور امریکہ میں قرارداد منظور ہونے سمیت بہت واضح ثبوت موجود ہیں کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگائی جائے، حکومت پی ٹی آئی پر پابندی کے لئے کیس دائر کرے گی۔

عطا تارڑ نے بتایا کہ حکومت نے سخت ترین کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، سابق صدر عارف علوی، بانی پی ٹی آئی عمران خان اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل 6 کا کیس چلایا جائے، تینوں افراد کے خلاف وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد ریفرنس سپریم کورٹ کو بھجوایا جائے گا، ان کے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بلاک کئے جائیں گے، پارلیمان سے قرارداد منظور کروائی جائے گی۔

عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ اگر ہم نے ملک کو ترقی کی راہ پر لے کر چلنا ہے تو پاکستان اور پی ٹی آئی مل کر نہیں چل سکتے یہ واضح ہے، آپ جلاؤ گھیراؤ سے قبل طالبان کو واپس لا چکے تھے، ایک طرف آپ دہشت گردوں کو لا کر یہاں پناہ دے رہے تھے دوسری جانب آپ جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ آور تھے، آپ کو کس نے اختیار دیا تھا کہ طالبان کو لا کر یہاں سیٹلڈ علاقوں میں آباد کریں، آپ نے قومی ایکشن پلان کو روک دیا اور ملک کے خلاف سازش کی۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ 2014 کے دھرنوں سے آج تک ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، انہوں نے ہمیں کمزور سمجھا اور گالی دینے کا کلچر پھیلایا، کہا گیا میں وہ ہوں جس کے کارکنان اپنے باپ کی نہیں سنتے، اسلامی ٹچ اور مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا، یہ وہ روش ہے جو کئی سالوں سے ہے، جب فلسطین پر حملے ہو رہے ہیں تو ان کے رہنما اسرائیلی بزنس مین کے ساتھ کھانے کیوں کھا رہے تھے۔

مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے پر عطاء اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کا منشور ہے کوئی غیر مسلم ان کی جماعت کا رکن نہیں بن سکتا، حالیہ فیصلے میں تحریک انصاف کو بن مانگے ریلیف دیا گیا، حکومت اور اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، نظرثانی میں یہ استدعا کی جائے گی کہ جنہیں ریلیف دیا گیا ہے کیا انہوں نے مانگا تھا؟ ایک سیاسی جماعت کو وہ حق دیا گیا جس کا وہ حق نہیں رکھتی، ہم سمجھتے ہیں کہ نظرثانی کی اپیل دائر کرنے میں حق بجانب ہیں، جن ایم این ایز کو ریلیف دیا گیا ہے کیا وہ عدلیہ کے سامنے موجود تھے، کیا انہوں نے یہ ریلیف مانگا تھا جو انہیں دیا گیا ہے؟

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی آئی کو فارن فنڈنگ کی گئی جس میں انڈین اور اسرائیلی فنڈنگ شامل ہے، 9 مئی کو ملکی دفاع پر ذاتی مفاد میں حملہ کیا گیا، بانی پی ٹی آئی کا پورا خاندان اس حملے میں ملوث تھا، بانی پی ٹی آئی کی تینوں بہنیں کور کمانڈر ہاﺅس کے باہر موجود تھیں، قوم کو کہا جا رہا تھا کہ انقلاب برپا ہونے لگا ہے فوری طور پر اپنی اپنی لوکیشن پر پہنچیں، بانی پی ٹی آئی نے انتشار اور تشدد کی سیاست کو فروغ دیا، انہوں نے ملک کے دفاعی اداروں کو نقصان پہنچایا، پی ٹی آئی حکومت ہی طالبان کو واپس لائی۔

آرٹیکل 6 کا مقدمہ چلانے کی کوئی بنیاد نہیں؛ علی ظفر

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کا کہنا ہے کہ جو لوگ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی بات کر رہے ہیں وہ کسی اور ہی دنیا میں رہ رہے ہیں۔ مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے سے حکومت کو جو صدمہ پہنچا ہے اس کے بعد وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس آرٹیکل 6 کا مقدمہ چلانے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ قانون میں پابندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اگر یہ حرکت کریں گے تو عدالتیں موجود ہیں، ہم حکومتی فیصلے پر عمل نہیں ہونے دیں گے۔ پی ٹی آئی پر پابندی لگانا آئین پاکستان کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہو گی۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

پس منظر

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا معاملہ

مارچ 2022 میں اپوزیشن جماعتوں نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی میں پیش کی تھی جس پر دو ہفتوں میں رائے شماری کرانا لازم تھا تاہم پاکستان تحریک انصاف کے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے ووٹنگ کرانے میں لیت و لعل سے کام لیا تھا۔ آخری دن صدر مملکت عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی جسے بعد ازاں سپریم کورٹ نے بحال کیا تھا۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے اس تناظر میں عمران خان، عارف علوی اور قاسم سوری کے خلاف آرٹیکل 6 کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

9 مئی حملے

9 مئی 2023 کو عمران خان کو جب اسلام آباد کی عدالت کے احاطے سے گرفتار کر لیا گیا تو تحریک انصاف کے کارکنان نے پورے ملک میں احتجاج شروع کر دیے۔ اس احتجاج کے دوران فوجی تنصیبات، شہدا کی یادگاروں اور اہم قومی عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی گئی اور جلاؤ گھیراؤ کیا گیا۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ 9 مئی کو ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے پہلے ہی کر لی تھی اور 9 مئی کو اسلام آباد روانگی کے موقع پر عمران خان نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا کہ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو ملک میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو جائیں گے۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر لگنے والی پابندیوں کی تاریخ

کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا آغاز جولائی 1954 میں ہوا جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر وزیر اعظم لیاقت علی خان کے خلاف سازش کے الزام کے بعد پابندی عائد کی گئی۔ میجر جنرل اکبر خان کی سرکردگی اور روس کی پشت پناہی سے تیار کی گئی اس سازش کو راولپنڈی سازش کیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کیس میں جنرل اکبر، ان کی اہلیہ، فیض احمد فیض، درجنوں فوجی افسر اور کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری سجاد ظہیر گرفتار ہوئے اور مقدمہ کے بعد انہیں جیل ہوئی۔ کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگتے ہی اس پارٹی کی قیادت کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا اور سجاد ظہیر کو بھارت بھجوا دیا گیا تھا۔

مارکسی انقلابی سجاد ظہیر نے 6 مارچ 1948 کو کلکتہ میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ جلد یہ پارٹی پاکستان منتقل ہو گئی اور مزدور رہنماؤں اور ٹریڈ یونین لیڈروں سے اس پارٹی کے اسی طرز پر روابط استوار ہو گئے جیسے روس کے انقلابی رہنما ولادی میر لین کے ہو گئے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی نے ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے طلبہ تنظیم بھی قائم کی۔ اس پر بھی 1954 میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پابندی لگنے سے قبل اس جماعت کے رجسٹرڈ اراکین کی تعداد تین ہزار کے لگ بھگ تھی۔

2013 میں ایک مرتبہ پھر اسی نام سے پارٹی دوبارہ رجسٹرڈ ہو گئی۔

جنرل ایوب خان کا دور

جنرل ایوب خان کے دور میں کسی خاص سیاسی جماعت پر تو پابندی نہیں لگائی گئی تھی تاہم اس دوران سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو کام سے روک دیا گیا تھا۔

عوامی لیگ پر پابندی

26 مارچ 1971 کو اس وقت کے صدر جنرل یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ پر پابندی لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شیخ مجیب کا عدم تعاون تحریک کا اقدام بغاوت کے زمرے میں آتا ہے، شیخ مجیب اور ان کی جماعت نے قانون کی خلاف ورزی کی اور پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کی۔

نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی

ملک دشمن سرگرمیوں کے الزام کے تحت نیشنل عوامی پارٹی کو دو مرتبہ پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی بار 26 نومبر 1971 کو صدر یحییٰ خان جبکہ دوسری بار 10 فروری 1975 کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس پر پابندی عائد کی تھی۔ اس پارٹی کی بنیاد 1957 میں ڈھاکہ میں مولانا عبدالحامد خان بھاشانی نے رکھی تھی جنہوں نے 1965 کے متنازعہ انتخابات میں صدر ایوب خان کی حمایت کی تھی۔ چین نواز نیشنل عوامی پارٹی 1967 میں دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ مولانا بھاشانی کو معروف سیاست دانوں غوث بخش بزنجو، جی ایم سید، مولانا مفتی محمود اور عبدالصمد خان اچکزئی کی حمایت حاصل تھی۔ مشرقی پاکستان میں اس کی قیادت مولانا بھاشانی کے پاس تھی جبکہ مغربی پاکستان میں روس نواز مولانا عبدالغفار خان کے بیٹے عبدالولی خان کے پاس تھی۔

2001 سے 2015 کے دوران لگنے والی پابندیاں

پاکستان میں 2001 سے 2015 کے درمیان 60 سے زائد مذہبی سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور ان کے تحت کام کرنے والے فلاحی اداروں پر پابندی عائد کی گئی۔

اس تمام تر عرصے کے دوران پابندی کی زد میں آنے والی مذہبی و سیاسی جماعتوں میں سے بیش تر دوبارہ نئے ناموں سے سامنے آ گئیں تاہم ان پر پھر پابندی عائد کر دی گئی۔ ان میں لشکر جھنگوی، سپاہ محمد پاکستان، جیش محمد، لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، پاکستان تحریک نفاذ شریعت محمد، تحریک اسلامی، القاعدہ، ملت اسلامیہ پاکستان (سابقہ سپاہ صحابہ پاکستان)، جماعت الانصار، جمعیت الفرقان، حزب التحریر، خیرالناس انٹرنیشنل ٹرسٹ، بلوچستان لبریشن آرمی، اسلامک سٹوڈنٹس موومنٹ آف پاکستان، لشکر اسلام، انصار الاسلام، حاجی غدار گروپ، تحریک طالبان پاکستان، بلوچستان ری پبلک آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، لشکر بلوچستان، بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ، بلوچستان مسلح دفاع تنظیم، شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی، گلگت مرکز سبیل آرگنائزیشن، تنظیم نوجوانان اہلسنت گلگت، پیپلز امن کمیٹی لیاری، اہلسنت والجماعت (سابقہ سپاہ صحابہ پاکستان)، الحرمین فاؤنڈیشن، رابطہ ٹرسٹ، انجمن امامیہ گلگت بلتستان، مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن گلگت بلتستان، بلوچستان بنیاد پرست اسلامی، تحریک نفاذ امن، تحفظ حدود اللہ، بلوچستان واہ لبریشن آرمی، بلوچ ری پبلکن پارٹی، آزاد بلوچستان یونائیٹڈ آرمی، سلامی مجاہدین، جیش اسلام، بلوچستان نیشنل آرمی، خانہ حکمت گلگت بلتستان، تحریک طالبان مہمند، طارق گیدار گروپ، عبداللہ اعظم بریگیڈ، مشرقی ترکمانستان اسلامی تحریک موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، اسلامک موومنٹ، اسلامک جہاد یونین، تحریک طالبان باجوڑ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر (حاجی غدار گروپ)، بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد، یونائیٹڈ بلوچ آرمی، جئے سندھ متحدہ محاذ اور داعش شامل ہیں۔

2015 میں ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائیوں کا آغاز ہوا تو ایسی کئی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کے اثاثہ جات قبضے میں لے لیے گئے اور ان کے بینک اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیے گئے۔

2018 کے انتخابات سے قبل الدعوۃ والارشاد سے منسلک ملی مسلم لیگ نامی سیاسی جماعت تشکیل دی گئی تاہم امریکہ کی جانب سے اس تنظیم پر پابندی کے باعث اسے رجسٹریشن کی اجازت نہ ملی۔ بعدازاں اس جماعت کے امیدواروں نے 'اللہ اکبر تحریک' کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔

تحریک لبیک پاکستان پر پابندی

2021 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان پر پابندی لگانے کا اعلان کیا۔ اس وقت کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے 14 اپریل 2021 کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ٹی ایل پی پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت نے تحریک لبیک پر پابندی کی سفارش کی تھی۔ تاہم بعد میں حکومت کے ساتھ معاملات طے پانے کے بعد 7 نومبر 2021 کو عمران خان کی حکومت نے تحریک لبیک سے پابندی ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔

مزیدخبریں