تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز جب پنجاب اسمبلی میں ایوان کی کارروائی شروع نہیں کی جاسکی تو گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے 40 ویں اجلاس کو منسوخ کرتے ہوئے 41 واں اجلاس 2 بجے ایوانِ اقبال میں منعقد کرنے کا سمن جاری کیا۔
تاہم گورنر پنجاب کے احکامات کے باوجود بھی اسپیکر صوبائی اسمبلی نے چوہدری پرویز الٰہی نے اعلان کیا کہ 40واں اجلاس جاری رہے گا۔
یہ مناظر پہلی بار دیکھے جارہے ہیں کہ دو بجٹ اجلاس ایک ساتھ آج (بدھ) منعقد ہوں گے، ایک اجلاس پنجاب اسمبلی میں ہوگا جس میں اپوزیشن پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) جبکہ دوسرا اجلاس ایوانِ اقبال میں ہوگا، جس میں برسرِ اقتدار اتحادی جماعتیں شرکت کریں گی۔
مسلم لیگ (ن) کے ایک قانون ساز نے بتایا کہ ’ جس میں اجلاس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قانون ساز شرکت کریں گے اس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کریں گے، جو خلافِ معمول حکمران اتحاد کے ساتھ ہیں‘۔
منگل کو چوہدری پرویز الٰہی نے پنجاب اسمبلی کا دوبارہ اجلاس شروع کیا اور ’عارضی‘ وزیر خزانہ سردار اویس لگاری سے بجٹ پیش کرنے کے لیے کہا۔
اس موقع پر اویس لغاری نے بتایا کہ گورنر اجلاس ملتوی کر چکے ہیں، جس کے بعد یہ کارروائی غیر قانونی ہے۔
اسپیکر نے صوبائی وزیر کو کہا کہ گورنر کے فیصلے کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے آپ بجٹ پیش کریں، اویس لغاری کے ہدایت پر عمل درآمد نہ کرنے پر پرویز الٰہی نے اجلاس بدھ ایک بجے تک ملتوی کردیا۔
دوسری جانب قواعد کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے دعویٰ کیاہے کہ ’ گورنر وقت نہ وقت جب اور جہاں بہتر سمجھیں صوبائی اسمبلی کے اجلاس انعقاد اور اس کے مقام کا سمن جاری کر سکتے ہیں اجلاس ملتوی بھی کر سکتے ہیں۔
صوبائی پولیس چیف کی جانب سے ان سے معافی مانگنے اور پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین پارلیمنٹ اور کارکنوں کے خلاف درج تمام مقدمات واپس لینے کے مؤخر الذکر مطالبات پر منگل کو مسلسل دوسرے روز بھی حکومت اور اسپیکر کے درمیان تعطل برقرار رہا جس نے بجٹ کی کارروائی شروع نہ ہونے دیں۔
صوبائی اسمبلی کے حربوں سے مایوس وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے اعلان کیا ہے کہ وہ مسائل سے نمٹنے کے لیے دوسری حکمتِ عمل تیار کریں گے اور الگ اجلاس کا انعقاد کریں گے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ پرویز الٰہی میرے اور عوام کے درمیان تقسیم نہیں پیدا کرسکتے ہیں، آئی جی اور چیف سیکریٹری نے ( 16 اپریل کو وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے اجلاس میں) اپنا قانونی کردار ادا کیا۔
صوبائی وزیر عطااللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ بجٹ ایوانِ اقبال میں پیش کیا جائےگا، ’ہم پرویز الٰہی کو اجلاس میں مدعو کیا ہے‘۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ قانون سازوں اور عوام کا استحقاق پامال کررہے ہیں، موجودہ اجلاس ملتوی ہوچکا ہے، اسپیکر کی رولنگ جاری ہے، اس اجلاس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
اطلاعات کے مطابق، پنجاب حکومت نے پی ٹی آئی کے قانون سازوں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات واپس لینے پر کچھ لچک دکھائی تھی، لیکن ایوان میں اسپیکر اور اپوزیشن کے ایم پی اے کے سامنے آئی جی پی اور سی ایس کی پیشی پر جھکنے کو تیار نہیں ہیں۔
ذرائع نے کہا کہ حمزہ اس معاملے پر پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ہدایات لے رہے ہیں جس نے انہیں کہا ہے کہ وہ اپوزیشن کے مطالبات کو تسلیم نہ کریں۔
منگل کی شب صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر الٰہی نے ایوانِ اقبال کے مجوزہ اجلاس کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے خواتین قانون سازوں سے فحش اشارے کرنے پر عطا تارڑ کے خلاف تحریک استحقاق موصول ہوئی ہے اس معاملے کو بدھ کے اجلاس میں سب سے پہلے اٹھایا جائے گا، عطا تارڑ اسمبلی کے رکن نہیں ہیں تاہم وہ غیر قانونی طور پر اجلاس میں موجود تھے۔
پی ٹی آئی کے اسلم اقبال کا کہنا ہے کہ ’ ایوانِ اقبال میں منعقد ہونے والا اجلاس وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے ہوٹل سیشن کی طرح ہوگا، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور اسے عدالت میں چیلنج کیا جائے گا‘۔