جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کو اگر وطن واپس لایا جاتا ہے تو پھر جیلوں کے دروازے کھول دیں اور عدالتوں کو بند کر دیں کیونکہ انکی پھر کوئی ضرورت نہیں۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس میں سینیٹر مشتاق احمد نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کیا۔
سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ پرویز مشرف کو لانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس حوالے سے میاں نواز شریف کا بھی بیان آیا ہے، اس ملک اور آئین کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے مگر ہم مجبور ہیں، ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے ہیں عملاً غلام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف 10 سالوں سے سیاہ سفید کے مالک رہے، دو مرتبہ آئین توڑا اور عدلیہ پر شب خون مارا، سابق چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا۔ پشاور کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا فیصلہ موجود ہے۔
پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ یہ فیصلہ ہم نہیں کریں گے یہ فیصلے کہیں اور ہوں گے، جب وہ باہر گئے تھے تو کیا آپ روک سکے تھے اور جب آئے گا تو کیا آپ روک سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہجب پرویز مشرف یہاں تھا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میں نے مشرف کو معاف کر دیا اور پرویز مشرف اب اگر آنا چاہتا ہے تو یہ اس کا پاکستان اور اس کا گھر ہے، پرویز مشرف کے ملک واپس آنے پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن سب کے ساتھ سلوک ایک جیسا ہونا چاہیے۔
چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف اس ملک کا باشندہ ہے، بیمار ہے اگر آنا چاہتا ہے تو آنے دیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اور سینیٹر عبدالغفور حیدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں، ان کی وطن واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے اور رکاوٹ پیدا کی گئی تو مناسب نہیں ہوگا۔
ن لیگ کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مشتاق احمد کے پرویز مشرف سے متعلق خیالات سے اتفاق ہے، انہوں نے نواز شریف کے بیان پر کہا کہ میاں صاحب نے شاید انھیں رعایت دے دی، میاں صاحب نے ذاتی حوالے سے بات کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے کہا کہ جو صدمے میں نے برداشت کیے وہ کوئی اور برداشت نہ کرے، میاں نواز شریف کے بیان کو آمر یا آمریت کی حمایت کے زمرے میں نہ لایا جائے، قانون آئین توانا ہے تو اپنا راستہ لے، نواز شریف نے انسانی حوالے سے بات کی۔
پی ٹی آئی سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ نواز شریف جیل سے دوائی لینے بیرون ملک گئے، نواز شریف خود اشتہاری ہے، اب آپ کی اپنی حکومت ہے لہٰذا واپس آئیں اور مقدمات کا سامنا کریں۔