انہوں نے موجودہ نصاب پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ طلبہ کو تشدد کی طرف لے جاتا ہے۔" انہوں نے طلبہ کو شہریت کی قدر بارے تعلیم دینے اور ان میں تنقیدی سوچ کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کے ماحول کو بہتر بنانے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ ان کا کہنا تھا "یونیورسٹیز کو کھلے بحث ومباحثے کے لیے آزاد رہنے دیں۔"
ان خیالات کا اظہار انھوں نے اسلام آباد میں ایک منعقد کئے گئے ایک سیمینار سے خطاب میں کیا۔ اسلام آباد میں ایک مشاورتی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے دیگر مقررین نے زور دیا کہ تنقیدی شعور اور صحت مند روشن خیال مکالماتی فضا کو فروغ دینے کے لیے حکومت کو ایسی پالیسیاں وضع کرنی چاہئیں جن کا محور طلبہ ہوں، تاکہ تعلیمی اداروں میں ایسی نسل تیار کی جاسکے جو تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور ہو۔
ماہرین کی اکثریت نے قواعد ضوابط کے تحت طلبہ یونینز کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا، کیونکہ اس سے ملک کے تعلیمی اداروں میں بڑھتی مذہبی اور نسلی بنیاد پرستی کی حوصلہ کی جاسکتی ہے۔
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک ’پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز‘ (PIPS ) کے زیراہتمام ’’نوجوانوں کے مابین تنوع، تکثیریت پسندی اور امن کے بیانیوں کا فروغ‘‘ کے عنوان کے تحت منعقد کی گئی ایک مشاورتی نشست میں سیاستدان، ماہرین تعلیم، مذہبی اسکالرز، طلبہ، صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک ہوئے۔
نشست کا مقصد اس بات کو جائزہ لینا تھا کہ تعلیمی نصاب نوجوانوں میں جمہوریت، شہریت اور آئین بارے آگہی پیدا کرنے میں ناکام کیوں ہوا، تعلیمی اداروں میں مذہبی بنیادپرستی کے محرکات کیا ہیں، اور یہ کہ نوجوانوں کی بہبود و ترقی کے لیے کی جانے والی قانون سازی کی کوششوں کا تنقیدی تجزیہ کیا جائے۔
مقررین شرکا کا موقف تھا کہ پاکستان میں نوجوان ریاستی پالیسیوں کے حوالے سے خاص علم نہیں رکھتے۔ انہوں نے زور دیا کہ نوجوانوں کو شہریت، جمہوریت اور آئین کی تعلیم دے کر اور ان کے مابین آزادانہ بحث ومباحثہ کی فضا کو فروغ دے کر تعلیمی احاطوں سے تشدد اور سخت گیر رویوں کا خاتمہ کیا جائے۔
ماہر تعلیم اور کالم نگار ڈاکٹر ناظر محمود نے افسوس کا اظہار کیا کہ ریاست کے پرتشدد رویے معاشرے میں منتقل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ایک ایسے مخصوص بیانیے کو سراہتی رہی جس میں جنگجوؤں کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا، جبکہ اس کے متبادل بیانیے کی حوصلہ شکنی کی گئی۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد علی نے موجودہ چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب پر نظر ثانی کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا نصاب طلبہ اور ان کے مفادات کو محور تصور کرتے ہوئے وضع نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمان اور ریاستی اداروں کو ایسا نظام وقع کرنا چاہیے کہ جس کے تحت یونیورسٹیز کو اجازت ملے کہ وہ اپنا نصاب اور انتظامی پالیسیاں خود بناسکیں۔
وزیراعظم کی معاون خصوصی رومینہ خورشید عالم نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’شہریت‘ کی قدر بارے سکول کی سطح پر تربیت دی جانی چاہیے۔ "میں سماجی ہم آہنگی کے تصور پر یقین رکھتی ہوں"، انہوں نے یہ بھی کہا کہ "آئین تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتا ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ اقلیتوں کا تصور بھی سماجی تقسیم اور درجہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔
رومینہ خورشید عالم نے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ اساتذہ کی تربیت بنیادی چیز ہے جو ہمیشہ تعلیمی نظام میں مفقود نظر آتی رہی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین سینیٹر ولید اقبال نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک کا موجودہ انتخابی نظام ایسا ہے کہ جو موروثی سیاست اور اشرافیائی بالادستی کی وجہ سے نئے چہروں کا راستہ روکتا ہے اور حقیقی عوامی نمائندوں کے آگے آنے کے مواقع محدود بناتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے، وہ نوجوانوں اور نئے لوگوں کو انتخابی ٹکٹ فراہم کریں۔
طلبہ یونینوں کو بحال کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے، سینیٹر ولید نے سینیٹ کمیٹی کی ایک ماضی کی قرارداد کا حوالہ دیا جس میں طلبہ یونینز پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو نے کہا کہ پاکستانی نوجوان الجھن اور کنفیوژن کا شکار ہیں اور ان میں اعتماد کا احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ طلبہ کو اس طرح تعلیم و تربیت دی جانی چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کر سکیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ نوجوانوں سے متعلق تمام مسائل پر قابو پانے کے لیے ریاستی سطح پر خاص پالیسی تشکیل دینی ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں طلبہ یونینز کی کچھ خاص "خوشگوار یادیں" نہیں رہیں۔
سرگودھا یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے طلبہ یونینوں کی بحالی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ان پر پابندی کے سبب اعلی تعلیمی اداروں میں نسل پرستی کو فروغ ملا ہے۔ اس حوالے سے دانشور اور کالم نگار خورشید احمد ندیم کا نقطہ نظر مختلف تھا، ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو یہ حق نہیں دیا جانا چاہیے کہ وہ طلبہ میں اپنے وِنگ اور شعبے بنائیں اور انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
’پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز‘ کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے اپنے ابتدائی کلمات میں اعلی تعلیمی اداروں کے اندر اساتذہ اور انتظامیہ کے مابین بڑھتی ہوئی داخلی سیاست کی نشاندہی کی، اور بتایا کہ اس کے برخلاف طلبہ کے لیے اپنے اظہارِخیال کی بہت محدود جگہ رہ گئی ہے۔