میجر جنرل بابر افتخار کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے متعلق کل تفصیلی بات کی تھی۔ کمیٹی اجلاس میں واضح کر دیا گیا تھا کہ عمران خان کی حکومت کیخلاف سازش کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی اجلاس میں تمام سروسز چیفس نے اپنا موقف واضح بیان کر دیا تھا۔ کمیٹی میں کسی بھی سروسز چیف نے یہ نہیں کہا کہ سازش ہوئی تھی۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کا ایجنڈا پہلے سے طے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کو جوڈیشل کمیشن بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ حکومت جو بھی کمیشن بنائے گی، ہم تعاون کریں گے۔ پہلی حکومت کے پاس بھی یہی آپشن تھا جبکہ موجودہ حکومت کے پاس بھی کمیشن بنانے کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ سازش کا لفظ کمیٹی کے اعلامیے میں بھی شامل نہیں ہے۔ اجلاس میں رائے نہیں تھی بلکہ انٹیلی جنس بیسڈ رپورٹ تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ڈی جی ISPR بار بار سیاسی معاملات کی تشریح نہ کریں تو اچھا ہوگا، اسد عمر
خیال رہے کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جنرل سیکریٹری اسد عمر نے کہا ہے کہ اگر ڈی جی آئی ایس پی آر بار بار سیاسی معاملات کی تشریح کرنا ضروری نہ سمجھیں تو یہ فوج کے لیے بھی اچھا ہوگا اور ملک کے لیے بھی اچھا ہوگا۔
شیریں مزاری کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت میں سے ایک صاحب نے ایک انٹرویو میں بات کی تھی کہ حقائق اور رائے کو الگ الگ کرکے دیکھنا چاہئے اور انہوں نے امریکا کی طرف سے دیے گئے دھمکی آمیز خط میں سے دو چار جملے بھی پڑھے تھے۔
اسد عمر نے کہا کہ دھمکی آمیز خط میں پاکستان کو سیدھی طرح دھمکی دی گئی تھی کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی اور عمران خان وزیر اعظم کے عہدے پر رہے تو پاکستان تنہائی کا شکار ہوگا اور پاکستان کے لیے مشکلات ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ خط میں لکھا گیا تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو سب کچھ معاف کردیا جائے گا۔
اسد عمر نے کہا کہ امریکا کے اس خط میں سیدھی دھمکی تھی کہ اگر اچھے بچے بنو گے تو سب کچھ معاف کردیا جائے گا اور خودداری کی بات کروگے تو مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات قومی سلامتی کے 2 بار ہونے والے اجلاس کے بعد جاری ہونے والی پریس ریلیز میں لکھی گئی ہے جس میں واضح طور پر ’بیرونی مداخلت‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ بیرونی مداخلت کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہ سچ ہے جس پر کوئی دو رائے ہے ہی نہیں، ہمارا ماننا ہے کہ بیرونی مداخلت ہوئی کیوں کہ اگر اس سے پہلے کے اقدامات دیکھیں تو کس طرح غیر ملکی سفیر خصوصی طور پر ان اراکین سے ملاقاتیں کرتے رہے جنہوں نے بعد میں پارٹی سے وفاداریاں تبدیل کیں اور کس طرح سے پیسہ آتا رہا اور ان اراکین کا ضمیر خرید کرنے کے لیے بہایا گیا۔
اسد عمر نے کہا کہ قومی سلامتی کی میٹنگ میں اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ وہ سازش کسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے نہیں تھی اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) یہاں تک بھی درست کہتے ہیں کہ عسکری قیادت میں سے کچھ نے اس میٹنگ میں کہا کہ ان کو کسی بھی بیرونی سازش کے شواہد نظر نہیں آئے۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ میں جو سویلین قیادت بیٹھی تھی اس کو یہ بات نظر آ رہی تھی کہ بیرونی سازش ہوئی ہے جو کہ ایک رائے تھی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان آئین و قانون پر عمل کرنے والے انسان ہیں اس لیے انہوں نے کوئی حکم جاری نہیں کیا کہ سب میری بات تسلیم کریں کہ بیرونی سازش ہوئی ہے اور ملوث لوگوں کو سزائیں دینا شروع کریں مگر عمران خان وہ خط کابینہ میں لے کر آئے اور جوڈیشل کمیشن بنانے پر زور دیا گیا مگر حکومت ہی ختم ہوگئی۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ ابھی بھی ہماری یہی اپیل ہے کہ اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جس کی کھلی سماعت ہو اور پورا پاکستان دیکھے کہ اس میں کون آ کر کیا بات کر رہا ہے اور کیا شواہد سامنے رکھے جا رہے ہیں، پھر اس بنیاد پر فیصلہ کیا جائے کہ واقعی میں بیرونی سازش تھی اور اگر سازش تھی تو اس میں کون ملوث تھا اور وہ تمام حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں۔
اسد عمر نے کہا کہ یہ بات اس وزیر اعظم اور کابینہ نے کی جو ڈیڑھ کروڑ سے زائد ووٹ لے کر حکومت میں آئی جس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قومی سلامتی کا دفاع کرے کیوں کہ قومی سلامتی کا دفاع کرنا صرف فوج کا کام نہیں ہے بلکہ اولین ذمہ داری قوم کی منتخب لیڈرشپ کی بنتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ میں جو تمام لوگ آتے ہیں وہ اس بات کا حلف اٹھاتے ہیں کہ ہم پاکستان کے آئین، خودمختاری اور قومی سلامتی کا دفاع کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے سپریم کمانڈر صدر پاکستان ہوتے ہیں اور انہوں نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ آپ کو ایک کمیشن بنا کر ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے چاہیں۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ عمران خان صرف یہ کہتے ہیں کہ قوم کا یہ حق ہے کہ حقیقت تک پہنچا جائے اور پاکستان تحریک انصاف کی چیئرمین کی حیثیت سے عمران خان چیف جسٹس کو پھر خط لکھیں گے جس میں وہ صدر پاکستان کی طرف سے لکھے گئے خط کا بھی ذکر کریں گے۔