https://twitter.com/RabNBaloch/status/1669017717926420480?s=20
یاد رہے ’پیپلز پارٹی آتی ہے روزگار لاتی ہے‘ جب بینظیر آئیں روز گار لائیں، ’اب بلاول آئے گا روز گار لائے گا‘ یہ وہ وعدے ہیں جو میئر مرتضی وہاب نے پیپلز پارٹی کے گڑھ لیاری میں ایک شاندار استقبالیہ میں جیالوں سے مخاطب ہو کر کہے۔
https://twitter.com/GulHameedPPP/status/1668557457759584256?s=20
واضح رہے کہ ماضی میں پیپلز پارٹی کا میئر کراچی کبھی منتخب نہیں ہوا۔ ہاں مگر پیپلز پارٹی کے پہلے ایڈمنسٹریٹر فہیم الزمان اور دوسرے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر مرتضیٰ وہاب اپنے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ کراچی میں 1979 سے لیکر اب تک جماعت اسلامی کے تین منتخب میئر رہ چکے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ایم کیو ایم کے میئر رہے ہیں۔ 1993 میں وزیر اعظم شہید بینظیر بھٹو نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے لیے ایدھی ایئر ایمبولینس کے کپتان فہیم الزمان کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا تھا۔
ماضی میں جماعت اسلامی کے تین بار میئر منتخب ہوئے دو بار عبدالستار افغانی 1979 اور 1983 میں اور جناب نعمت اللہ ایڈووکیٹ 2001 میں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1979 میں پی پی پی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا جیسا آج پی ٹی آئی کے بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ ہو رہا ہے ورنہ افغانی صاحب کا جیتنا مشکل تھا۔
https://twitter.com/RabNBaloch/status/1667772703506309121?s=20
1983 میں عبدالستار افغانی باآسانی جیت گئے۔ جماعت اسلامی کے ماضی میں بننے والے میئرز کے بارے میں یہ بات بھی متعدد بار کہی جا چکی ہے کہ آمروں کے دور حکومت میں ہی جماعت اسلامی کا میئر کیوں بنتا رہا؟ عبد الستار افغانی بھی مارشل لا کے دور میں میئر بنے جبکہ نعمت اللہ 2001 میں ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے بعد مشرف دور میں میئر بنے۔
میئر کراچی کے انتخاب کے لیے کراچی سٹی کونسل میں حصہ لینے کے لیے مجموعی 366 ارکان میں سے ہال میں موجود ارکان کی تعداد 133 تھی۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی ف کے 173 ارکان ووٹ کاسٹ کرنے پہنچے جبکہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے حاضر ارکان کی تعداد 159رہی۔
پیپلز پارٹی کی نڈر سیاستدان مرحومہ فوزیہ وہاب کے صاحبزادے مرتضی وہاب اپریل 2015 کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صوبائی کابینہ میں بطور وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے قانون مقرر ہوئے جبکہ دو ماہ بعد ہی انہیں وزیر کا عہدہ دے دیا گیا۔ 22 نومبر 2016 کو سندھ ہائی کورٹ نے وزیر اعلیٰ سندھ کے مشیر کے طور پر ان کی تقرری کو غیر قانونی قرار دے دیا۔2017 میں پیپلز پارٹی کے بلا مقابلہ ممبر منتخب ہوئے۔ یہ نشست سعید غنی کے استعفیٰ کے بعد خالی ہوئی تھی۔
2018 کے عام انتخابات میں پہلی بار انتخابی عمل کا حصہ بنے مگر پی ایس 111 سے تحریک انصاف کے عمران اسماعیل سے ہار گئے۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنتے ہی وزیر اعلی مراد علی شاہ کے مشیر برائے قانون اور انسداد بدعنوانی اسٹیبلشمنٹ کا عہدہ ملا۔ انہیں اگست 2021 میں کراچی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ شاید انہیں آج کے دن مئیر کراچی کے لئے ہی پہلے ایڈمنسٹریٹر کا تجربہ دلوایا گیا تھا۔
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب 1983 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ صحافی وہاب صدیقی اور سیاستدان فوزیہ وہاب مرحوم کے فرزند مرتضیٰ وہاب نے بی وی سی پارسی ہائی سکول کراچی سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس سے انٹرمیڈیٹ کیا۔ جامعہ کراچی سے گریجویشن اور قانون کی ڈگری برطانیہ سے حاصل کی۔