ماہر معاشی امور ڈاکٹر حفیظ پاشا نے ان خیالات کا اظہار جرمنی کے معروف تھنک ٹینک Friedrich Ebert Stiftung (FES) کے زیر اہتمام "پاکستان کی معیشت میں اہم مسائل" پر اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران کیا۔
تقریب میں ایف ای ایس پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر ڈاکٹر نیلز ہیگویچ اور وزیر مملکت برائے خزانہ اور محصولات ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے شرکت کی۔ تقریب میں سینئر سیاسی رہنماؤں، ماہرین اقتصادیات، سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
اس موقع پر ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر ملکی ضرورت سے 16 ارب ڈالر کم ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی مشکل ملٹی لیٹرل قرضے ہیں۔ زیادہ قرضہ انہی ذرائع سے حاصل کیا گیا۔ اس قرضے کی واپسی سب سے بڑا چیلنج ہے۔ دوسرا بڑا چیلنج آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 9 ہزار ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے دہائیوں میں مکمل نہیں ہوسکے۔یہ منصوبے آئندہ 18 سالوں میں بھی مکمل نہ ہوسکیں گے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پی ایس ڈی پی ماضی میں جی ڈی پی کا 3 فیصد ہوا کرتی ہے۔ اب یہ 1 فیصد سے بھی کم ہے۔
آئی ایم ایف کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا بڑا اعتراض ٹیکس ایمنسٹی پر ہے۔ بجلی کی سبسڈی پر بڑا کٹ لگانا آئی ایم ایف کی بڑی ڈیمانڈ ہے۔ ڈالر کی قیمت مارکیٹ میں طے ہونا اس کی تیسری بڑی ڈیمانڈ ہے۔سالانہ 50 ارب روپے کا سرکاری اداروں کو خرچہ روکنا بھی ایک بڑا مطالبہ ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا مزید کہنا تھا کہ قرضوں پر سود کی عدم ادائیگی بحرانی کیفیت اختیار کرچکی ہے۔ آئی ایم ایف کا پیکیج 3 نومبر 2022 کو مکمل ہونا تھا۔بیرون ملک پاکستانی اثاثے 14 ارب ڈالر منفی میں جاچکے ہیں ۔ 24 جون تک بجٹ پر نظر ثانی کرکے آئی ایم ایف سے معاملہ کرنے کا موقع موجود ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ڈیفالٹ کے خطرے کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفالٹ کے قریب پہنچے ہوئے دنیا کے 11 ممالک میں پاکستان کا نمبر نواں ہے۔ خوراک میں مہنگائی 53 فیصد تک جانے کا خطرہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ ڈالر کی قدر میں بے لگام اضافہ ہے۔ 10 سے 11 فیصد مزید لوگ سیلاب کے باؑث بے روزگار ہوئے۔ان لوگوں کی تعداد 25 لاکھ کے قریب ہے۔ 1 کروڑ 10 لاکھ لوگ پہلے ہی بے روزگار تھے۔اڑھائی کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت کو اس غربت پر قابو پانے کے لیئے 2400 ارب روپےدرکار ہیں۔ مہنگائی سے بچانے کے لیئے تنخواہوں اور پنشن میں آئندہ سال 600 ارب روپے کا اضافہ کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا تھا کہ حکومت کو تجارتی معاہدوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ پاک چین تجارت کا توازن 90 فیصد چین کے حق میں ہے۔
اس موقع پر وزیر مملکت برائے خزانہ اور محصولات ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ پاور سٹرکچر میں کون سی قوتٰ ریفارمز کو روکتی ہیں۔ہم 100ویں سالگرہ پر بھی پاکستان کے مسائل کو رونا رو رہے ہوں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو معاشی شرح نمو بڑھانا ہوگی۔ اس مقصد کے لیئے پاکستان کو موزوں اقدامات کا فیصلہ کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے زور دیا کہ پاکستان کو استحکام کے ساتھ ساتھ دیرپا ترقی کی ضرورت ہے۔حکومت کو میکرواکنامک پالیسی کے ساتھ ساتھ فلاحی اقدامات کرنا ہوں گے۔
تقریب میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ترقی کو سٹرکچرل مسائل کا سامنا ہے۔اس ملک میں چند لوگوں کی مراعات ساری آبادی پر بھاری ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت کو اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا۔