جہاں نااہلی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہ وہاں ہمیشہ ہی موجود رہتی ہے— ماشا گیسن
دنیا کی تاریخ میں حکومت اور طرز حکمرانی کی مختلف شکلوں کی ایک لمبی فہرست ہے، لیکن ارسطو اور سقراط کے یونانی دور نے جمہوریت، بادشاہت، اشرافیہ اور استبداد کو بنیادی حیثیت دی۔ جیسا کہ دیکھا جا سکتا ہے، دنیا بھر کے ممالک میں حکومت کی ایک یا دوسری شکل ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں، اب کوئی بھی اس طرز حکمرانی کو ایک نیا نام Maladroity (لفظ 'maladroit' سے مراد نااہلی ) دے سکتا ہے۔
بدقسمتی سے آج کے پاکستان میں سرکاری اور نجی خدمت کے ہر شعبے میں نااہلی کی سطح اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ صاحب عقل حضرات سوچنے پر مجبور ہیں کہ بالآخر یہ ملک اب تک کیسے بچا ہوا ہے۔ بلاشبہ یہ دور حاضر کے عقلی اور اعلیٰ سائنسی کارنا موں کی دنیا میں کسی معجزے سے کم نہیں۔ یقیناً آج سے پچاس سال بعد، کل کے مورخ، ماہرین سیاسیات، دانشور اور تاریخ کے طلبہ پاکستان کو ایک انتہائی دلچسپ اور پراسرار کیس سٹڈی کے طور پر دیکھیں گے۔
اہل علم کہتے ہیں کہ لوگ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ بہتری اور ترقی کرتے ہیں۔ غلطی کرنا انسانی فطرت کا حصہ ہے — انسان غلطی کا پتلا ہے — لیکن اسی غلطی کو اس امید پر دہراتے رہنا کہ آخر کار اس کا نتیجہ بہتر نکلے گا، اسے غفلت بلکہ نااہلی کی انتہا ہے۔
پاکستان میں یکے بعد دیگرے اقتدار میں آنے والی سول حکومتیں سالانہ بجٹ کو بنیادی طور پر دلچسپی نہ لینے والی پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی مشق میں مصروف رہی ہیں۔ سٹیک ہولڈرز، خاص طور پر جو دستاویزی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، وزیر کے ہر لفظ کو توجہ سے سنتے ہیں جو مثبت تجاویز کے بارے میں سننے کی امید میں بولتے ہیں جس سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو اور ٹیکسوں کی مسلسل آمد سے کچھ راحت ملے۔ ہر بار سیاہ / سرمئی معیشت کے بڑھتے ہوئے خدشات کے ساتھ مایوسی کے سوا کچھ نہیں حاصل ہوتا۔
چارلی چپلن کی پرانے زمانے کی خاموش فلمیں یا آج کی مسٹر بین عام طور پر دکھاتی ہیں کہ ایک چھوٹی سی بات کو چھپانے کی کوشش میں یہ کردار ایک ایسے جال میں پھنس جاتے ہیں جو بالآخر مکمل طور پر تباہی کا باعث بنتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ہمارے وطن عزیز میں ہو رہا ہے جہاں اپنے آپ کو 'عظیم' دماغ رکھنے والے افراد کے ایک گروہ نے ایسی حکمت عملی تیار کی، جس سے ناصرف ملک کا ایک اہم بازو علیحدہ ہو گیا، بلکہ باقی ماندہ حصے کی پوری آبادی پر بھی جابرانہ قابو پا لیا گیا اور بے بسی کی تاریک کھائی میں دھکیل دیا گیا، جس سے فرار ممکن نظر نہیں آتا۔
حکومت کا تقریباً ہر محکمہ اور پرائیویٹ سیکٹر کا ایک اچھا خاصا حصہ بھی میرٹ کے فقدان اور نااہلی کی کثرت کی وجہ سے ناکارہ ہو چکا ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ قدرتی وسائل سے مالا مال خطہ نہ صرف بنجر دکھائی دے رہا ہے بلکہ بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ غلط اور متضاد پالیسیوں کے تسسل، آئینی شقوں کی عدم پاسداری، مسلسل اور ناقابل یقین رفتار سے بڑھتی ہوئی آبادی کو قطعی نظر انداز کرنے کے مجرمانہ عمل نے ناصرف معیشت کے تانے بانے کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے، بلکہ بقا کے سنگین سوال کو بھی جنم دیا ہے۔
12 جون 2024 کی شام قریب آئی، امید کی ایک لہر اٹھی کہ نئے اور ماہر بینکر سے سینیٹر اور وزیر خزانہ بنے محمد اورنگزیب مالی سال کے لئے بجٹ تجاویز میں کچھ معقولیت کا مظاہرہ کریں گے۔ یقیناً یہ توقع قلیل المدت تھی! وہ بھی اس بجٹ کے حقیقی نمائندوں کے بہکاوے میں آ کر ان کے جال میں پھنستے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش میں کہ 12,970 ارب روپے کے ٹیکس محصولات کا حصول ممکن ہے، جو تجاویز پیش کی گئی ہیں وہ آئین یا عوام کی امنگوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ ذیل میں چند کا ذکر کیا جاتا ہے۔
سب سے پہلے، جب انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 37 کی ذیلی دفعہ (1A) کو 2012 میں متعارف کرایا گیا تھا، یہ آئین پاکستان میں وفاقی قانون سازی کی فہرست کے آئٹم 50 کے خلاف تھا، جو اٹھارھویں آئینی ترمیم کے بعد غیر منقولہ جائیداد پر کیپٹل ویلیو ٹیکس لگانے کا اختیار صرف صوبائی حکومتوں کو اختیار دیتا ہے۔ غیر منقولہ جائیداد پر ٹیکس لگانے کے حق پر وفاق کے غیر آئینی قبضے کو چونکہ صوبائی حکومتوں کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ملی، تو اب مالیاتی بل میں 2024 غیر منقولہ جائیداد کی فروخت پر ہولڈنگ کی مدت کو ختم کرنے کی تجویز کے ساتھ وفاقی حکومت کی طرف سے اس استحقاق کو مکمل طور پر غصب کرنے کا عندیہ دیا ہے اور اس پر فیڈرل ایکسائز بھی لگانے کی تجویز ہے۔ یہ ہمیں عرب اور اونٹ کی یاد دلاتا ہے جہاں جانور آہستہ آہستہ اپنے مالک کو خیمے سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔
دوم، برآمد کنندگان بھی انکم ٹیکس کی خصوصی شرح اور زیرو ریٹڈ ٹیکس اٹھانے سے بری طرح متاثر ہوں گے۔ 32 سال کے وقفے کے بعد، ہم ایک مرتبہ پھر وہاں واپس آ گئے ہیں جہاں سے یہ سفر شروع ہوا تھا۔ اس ملک کے ریونیو محکموں میں نااہل اور اب تصدیق شدہ راشی اہلکاروں کی موجودہ سطح کے ساتھ، اگر صحیح آڈٹ کرایا جائے تو ٹیکس وصول کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ 1991-1992 میں درآمد کنندگان پر کم از کم ٹیکس کا تصور انکم ٹیکس آرڈیننس 1979 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس تجویز سے محاذ آرائی / قانونی چارہ جوئی کا ایک نیا پنڈورا بکس کھلے گا جو عدلیہ کی پریشانیوں میں بھی اضافہ کرے گا اور کاروبار کے چلتے ہوئے بہاؤ کو روک دے گا۔ اس سے صرف بدعنوان آڈیٹرز اور ٹیکس کنسلٹنٹس کو ہی فائدہ ہوگا۔
جس انداز سے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کو مسلسل جھٹکے لگ رہے ہیں، اس کا عنوان جلد ہی بے معنی ہو جائے گا، جسے ٹرانزیکشنل ٹیکس ایکٹ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اس میں شاید ہی کوئی ایسی چیز رہ گئی ہو جس کا حقیقی آمدنی سے کوئی تعلق ہو۔ ملک کے ماحول کی طرح، یہ بھی ٹیکس کے معاملات میں انصاف، یقین، سہولت اور کارکردگی کے ایڈم سمتھ کے اصولوں پر غالب آ گیا ہے۔ شاید حکومت کے اصول ناانصافی، غیر یقینی صورتحال، پریشانی اور اپنی ٹیکس پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے نااہلی میں بدل گئے ہیں۔
بار بار آئین کے آرٹیکل 4(2)(c) کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے: ’’کسی شخص کو وہ کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کا قانون اس سے تقاضا نہیں کرتا‘‘۔ پھر نان فائلرز ہونے پر لاکھوں جرمانے کا کیا جواز ہے اگر وہ حقیقی طور پر ٹیکس کے قابل آمدنی کی قانونی حد سے کم کما رہے ہیں؟ اس کے علاوہ بھاری ٹیکس لگا کر نان فائلرز کو مسلسل نشانہ بنا کر، ریونیو حکام مکارانہ ہتھکنڈے استعمال کر کے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے میں مسلسل اپنی بدنیتی کا پردہ فاش کر رہے ہیں جو کہ ملک کو فائدہ پہنچانے سے زیادہ منفی کاروباری ردعمل کا باعث بن رہے ہیں۔ ان کے کھاتوں میں بے تحاشا ریفنڈز کا ڈھیر لگا ہوا، لوگ ٹائم بم کی طرح پھٹنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں، اس وقت سے اہل اقتدار ڈریں، جب لوگ واقعی مشتعل ہو جائیں۔
ایسی معقول تجاویز کی کمی نہیں ہے جو ملک میں ہنگامہ برپا کیے بغیر محصولات میں قابل قدر اضافہ کر سکیں، کیونکہ جین باپٹیسٹ کولبرٹ کے الفاظ میں: " ٹیکس لگانے کا فن ہنس ( ٹیکس دہندہ) کو تکلیف دیے بغیر زیادہ سے زیادہ مقدار میں پنکھوں کو توڑنے پر مشتمل ہوتا ہے"۔
اگر حکومت اپنی بددیانتی سے شہریوں کی زندگی اجیرن کرنے پر قائم رہی تو وہ وقت دور نہیں جب اس ملک میں ٹیکس کے خلاف ملک گیر بغاوت ہو گی۔