حال ہی میں راولپنڈی کے معروف اشاعتی ادارے ’’رمیل پبلیکیشنز‘‘ کے زیراہتمام سامنے آنے والی کتاب ’’گل مینہ‘‘ ظفر سید کا دوسرا ناول ہے۔ کچھ ہی برس قبل جب ان کا پہلا ناول ’’ آدھی رات کا سورج‘‘ فکشن ہائوس لاہور نے شائع کیا تو اس نے بھی ادب دوست قارئین کو چونکا دیا تھا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ کمرشل لکھنے والوں اور والیوں کی بے محِابا دلدل میں بے تحاشا ڈبکیاں کھاتے قارئین اس نوع کی بے تکلف نثر اور آزاد بیانیے کے عادی تھے اور نہ ہی ہو پائے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنے چاروں اطراف پھیلے ہوے سرکاری اور غیر سرکاری، روایتی اور سوشل میڈیا، غرض ہر طرح کے میڈیا کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
مصنف کا نام چھوڑ کر (کام کی طرف بعد میں آتے ہیں) ان دونوں ناولوں کے مابین سنجیدگی کے علاوہ شاید ہی کوئی بات مشترک نکلے۔ ’’ آدھی رات کا سورج‘‘ اپنی سادگی، پرکاری اور اختصار میں تفصیل کے پہلو لیے ہوئے تھا۔ اس کی نسبت حالیہ ناول ’’گل مینہ‘‘ متعدد تہوں پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ، ضخامت میں بھی دگنا ہے۔
ایسا نہیں کہ ظفر سید کا نام علمی و ادبی حلقوں کے لیے نیا ہو۔ ان کی منفرد طبع زاد نظمیں موقر ادبی جریدوں میں گاہے بگاہے چھپتی رہی ہیں۔ انہوں نے عالمی ادب کے تراجم بھی کیے ہیں جو تواتر کے ساتھ سامنے آتے رہے ہیں۔ ان میں خورخے لوئیس بورخیس کے منتخب افسانے خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کی اشاعت کا اہتمام اکادمی ادبیات پاکستان کر رہی ہے۔
کچھ ان کے حالیہ ناول پر بھی بات ہو جائے۔ ’’گل مینہ‘‘ میں حالات و واقعات کا کارجہاں پاکستان اور افغانستان سے لے کر قلعہ الموت تک دراز ہے۔ اس سفر میں جوان مرگ سے سرسری ہیلو ہائے ہوتی ہے۔ احمد شاہ ابدالی سے علیک سلیک کا موقع ملتا ہے۔ کہیں قبائلی عمائدین سے جھگڑے کی نوبت آن پڑتی ہے تو کہیں پیار بھرے دو شرمیلے نین رسوم و قیود سے فرار کی راہ دکھاتے ہیں۔ کوئی کڑیل جوان رائفل سے کافر جہاز مار گراتا ہے تو کوئی کافر حسینہ جنت کا ٹکٹ بن کے نمودار ہوتی ہے۔
حسن بن صباح کے فدائین سے ملا عمر کے طالبان تک، ٹرک آرٹ کے استاد شفیق سے خود کش مجاہد فتح خان تک چار سو صفحات پر مشتمل اس ناول میں مختلف کردار ظاہر ہوتے ہیں۔ پھر بھی مرکزی اور ضمنی کرداروں کے اس وسیع و عریض جھرمٹ کے بیچ دو بنیادی مرکزی کردار شروع سے آخر تک نمایاں رہتے ہیں۔
گل مینہ اور زرجانان کے رومان کی شش جہت داستان پھیلتے پھیلتے بہت سی زمینوں، زمانوں اور ان پر مبنی افسانوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ کرداروں کے خاندانی خواص سے قبیلوں کے جنگی رجحانات تک، اتنی کہانیوں، اتنے بیانیوں کے تار و پود بکھرتے اور سمٹتے دکھائی دیتے ہیں کہ پڑھنے والا حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اس دوران کرداروں کی متعدد نسلوں کے ساتھ ساتھ بیانیوں کی متفرق فصلیں ہماری آنکھوں کے سامنے پلتی پنپتی ہیں اور اپنے منطقی انجام کو پہنچتی ہیں۔ یہ الگ بات کہ بعض اوقات کیا آغاز کیا انجام، سب کچھ اس قدر منصفانہ لگتا ہے جتنا کہ اس خطے کا نظام ہستی جسے کوئی چلا تو ضرور رہا ہے اور اس کا انداز بھی کسی مبینہ خدا سے جدا نہیں۔
عبداللہ حسین کے بجا طور پہ کلاسیکی ناول ’’اداس نسلیں‘‘ کی اشاعت پر اردو کے بے مثل انشا پرداز محمد خالد اختر نے کچھ یوں تبصرہ کیا تھا کہ یہ اگر رایٹر کی ناکامی بھی ہے تو بڑی سطح کی۔
میرا مسئلہ ظفر سید کو کامیاب یا ناکام قرار دینا تو نہیں البتہ یہ امر بجائے خود دلچسپی کا سامان اور غور و فکر کا امکان رکھتا ہے کہ عمدہ ہونے کے باوجود یہ ناول مرکز نگاہ یا موضوع گفتگو کیوں نہ بنا۔
سماج ہو یا سیاست، ادب ہو یا ثقافت، کسی بھی میدان میں سکہ رائج الوقت کا تعین وہی اشرافیہ کرتی ہے جس کے بارے میں مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں، جس کے ایک ہاتھ میں دین ہو، دوسرے میں دنیا اور ایک ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دوسرے میں کیا ہے۔ اسے تاریخ کا جبر کہہ لیں یا جبر کی تاریخ سمجھ لیں۔
فیکِٹ ہو یا فکشن، دونوں کی الگ مارکیٹ ہے جہاں اس کے اپنے اصول لاگو ہوا کرتے ہیں۔ بکنے والی چیز چلتی ہے، چلنے والی چیز دوڑتی ہے بلکہ اڑتی ہے اور وہ بھی بے پر۔۔۔ اس لیے تعجب کی بات نہیں کہ نہ ’’ آدھی رات کا سورج‘‘ دائیں بازو کے رجعت پسند بیانیے سے لگا کھا سکا نہ ’’گل مینہ‘‘ بائیں بازو کے لبرل بیانیے میں فٹ آ سکا۔
اور سب سے اہم یہ ہے کہ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ سے متاثر ہو کر تخلیق کیے جا رہے ادب کے روز افزوں مگر سر نگوں انبار میں سے ممکن ہے، یہ ناول بچ جائے۔