تائیوان کے جغرافیائی اعتبار سے اس وائرس کے مرکز چینی صوبے ہوُبئی سے قریب ہونے کے باوجود حکام کی طرف سے فوری طور پر کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں اس بحران کو روکنے میں مدد ملی ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کے شہر ووہان سے کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے عمل کو دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب تک دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد اس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔
جب جنوری میں یہ وبا پھیلنا شروع ہوئی تھی اس وقت کچھ ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ چین سے باہر تائیوان کی سرزمین پر کرونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز سامنے آئیں گے۔ اس کے برعکس اب جبکہ چین میں اب تک کووڈ 19 کے 80 ہزار سے زائد کیسز سامنے آ چکے ہیں، تائیوان نے اپنی ہاں تصدیق شدہ کیسوں کی تعداد 50 سے کم بتائی ہے۔ کچھ بین الاقوامی ماہرین صحت نے اس کی وجہ تائیوان کے حکام کی جانب سے اس کی روک تھام کے لیے فوری اور موثر اقدامات بتائی ہے۔
امریکہ میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ پالیسی کے ماہر ڈاکٹر جیسن وانگ نے کہا کہ تائیوان نے بحران کے ممکنہ پیمانے کو جلد ہی پہچان لیا تھا اور پھیلنے سے پہلے ہی اس پر قابو پا لیا۔
وانگ نے کہا کہ تائیوان نے سارس وبا کے بعد 2002 اور 2003 میں نیشنل ہیلتھ کمانڈ سینٹر قائم کیا تھا۔ یہ اگلے بحران کی تیاری تھی۔ یہ سینٹر اعداد و شمار کو مربوط کرتا ہے اور ماہرین کو مل کر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
تائیوان کی حکومت نے مین لینڈ چین میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے فوراً بعد ہی سفری پابندی عائد کر دی تھی۔ مزید برآں، تائیون کی حکومت نے سرجیکل ماسک ایکسپورٹ کرنے پر بھی پابندی نافذ کر دی تھی۔
وانگ نے کہا کہ صحت عامہ کے قوانین متعارف کرانے سے تائیوان کی حکومت کو وسائل مختص کرنے کا اضافی اختیار بھی مل گیا۔ حکومت نے قومی صحت انشورنس کے اعداد و شمار کو امیگریشن اور کسٹم کے اعداد و شمار کے ساتھ مربوط کیا۔ اس سے فرنٹ لائن طبی عملے کو مشتبہ مریضوں کی سفری تاریخ کی جانچ پڑتال کے بعد ان کے اندر وائرس کی شناخت کے معائنے کی اجازت بھی مل گئی۔
تائیوان کی حکومت نے ایک ایسا پروگرام بھی تیار کیا ہے جس کے تحت تائیوان پہنچنے پر لوگ QR کوڈ اسکین کے ذریعے اپنی ٹریول ہسٹری اور بیماری کے علامات کی اطلاع دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد مسافروں کو ان کی صحت کی موجودہ صورتحال کے بارے میں ایک ٹیکسٹ میسج ملتا ہے۔ اس کے تحت کسٹم افسران کم خطرے والے مسافروں کو چھوڑ سکتے ہیں اور کووڈ 19 کے انفیکشن کے خطرے سے زیادہ دوچار مسافروں پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔
پبلک ہیلتھ پالیسی کے ماہر ڈاکٹر جیسن وانگ مزید کہتے ہیں کہ تائیوان کی حکومت نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ بہت ساری چیزیں کرنے میں کامیاب رہی ہے، اور ان طریقوں سے وہ لوگوں کی صحیح طور پر چھان بین اور مناسب دیکھ بھال کر سکتے ہیں۔
تائیوانی حکام کو سرکاری قواعد و ضوابط پر عمل کرنے کے لیے عوام کی رضامندی اور اس بارے میں عوامی شعور نے بھی بہت سہارا دیا ہے۔ عوامی شمولیت کے ساتھ ہی حکام کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا سد باب کرنے میں کامیاب رہے۔
تائیوان نے گذشتہ چند دہائیوں سے اپنی بائیومیڈیکل تحقیقی صلاحیت میں سرمایہ کاری کی ہے اور تحقیقاتی ٹیمیں COVID-19 کے لیے تیزی سے تشخیصی ٹیسٹ کو بڑے پیمانے پر تیار کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ گذشتہ اتوار کو، تائیوان کی اکیڈمیا سنیکا کی ایک تحقیقی ٹیم نے اینٹی باڈیز تیار کیں، جو ان پروٹین کی نشاندہی کر سکتی ہیں جو کرونا وائرس کا سبب بنتے ہیں۔ ان کا مقصد کرونا وائرس کے لیے ایک نیا تیز رفتار ٹیسٹ تیار کرنا ہے جو تشخیص کے لیے ٹائم فریم 20 منٹ تک مختصر کر سکتا ہے۔
ٹیم کے سرکردہ محقق ڈاکٹر یانگ ان سوئی نے 8 مارچ کو کہا کہ ٹیم کے لیے اگلا مرحلہ تائیوان میں اس تیز رفتار ٹیسٹ کٹ کو قابل استعمال بنانے اور مہیا کرنے سے پہلے اس مصنوع کو قانونی شکل دینا ہے۔