ن لیگ کی آخری امید کی واپسی: ڈیل ختم ہو گئی یا مزید پکی ہو گئی ہے؟

02:49 PM, 15 Mar, 2020

نبیہ شاہد
کچھ دن قبل میرے کانوں نے وہ آواز سنی جس کا میں شدت سے انتظار کر رہی تھی۔ صرف میں نہیں بلکہ پورا ملک اس خاموشی کے پیچھے چھپی وجہ کی تلاش میں تھا۔ ن لیگ کافی کشمکش میں نظر آ رہی تھی۔ حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ۔ خود پارٹی کے اندر شہباز شریف کی واپسی کے مطالبے شروع ہو چکے تھے۔ پارٹی رہنماؤں میں اختلافات کی خبریں ہیڈ لائنز بن رہی تھیں۔ پنجاب کے ایم پی ایز کی وزیر اعلیٰ عثمان بزادر سے ملاقاتیں شروع ہو چکی تھیں۔

ن لیگ ابھی ان مسائل کا ہی شکار تھی کہ ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے آخر کار اپنی چار ماہ پرانی خاموشی توڑ دی۔ مریم نواز کی گفتگو سے کچھ سوالوں کے جواب تو ملے لیکن وہیں کچھ نئے سوالات نے بھی جنم لے لیا۔  مریم نواز کو 6 نومبر 2019 کو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد مکمل طور پرخاموش تھیں۔ اس عرصے میں بہت سے اہم واقعات ہمارے سامنے آئے جن میں نواز شریف کا پاکستان سے باہر چلے جانا، ن لیگ کا آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع پر حکومت کا بھرپور ساتھ دینا، اہم لیگی رہنماؤں کا ضمانتوں پر رہا ہونا اور خاص طور پر ڈیل کے چرچے ہونے لگے تھے۔

ایسا محسوس ہورہا تھا کہ نواز شریف کے باہر جانے اور مریم نواز کی خاموشی اسی ڈیل کا حصہ ہے۔ یہ خاموشی بلا وجہ۔ نہیں یہ بات بھی اہم ہے کہ مریم نواز نے اس سے پہلے بھی خاموشی کے روزے رکھے ہیں۔ پہلا خاموشی کا دور ان کی والدہ کی وفات کے بعد آیا تھا لیکن اس کے بعد وہ پھر سرگرم ہوتی دکھائی دی تھیں، جس کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ضمانت کے بعد دو دن قبل پہلی بارایک بار پھرمریم نواز سرگرم نظر آئیں۔



اب بات کرتے ہیں مریم نواز کے بیان کی۔ ان کے بیان سے یہ تاثر ملا کہ وہ اپنی مرضی سے خاموش نہیں تھیں، انہیں بلکہ پارٹی قیادت کی جانب سے خاموش رہنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ۔ یہ تاثر بھی تھا کہ گذشتہ چند دنوں سے شریف برادران پر ہونے والی تنقید کا جواب دینے کے لئے اب مریم نواز میدان میں اتر آئی ہیں جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے بار بار یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ نواز شریف ایک ڈیل کے تحت ملک سے باہر گئے۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ گذشتہ کئی دنوں سے ن لیگ کے اندر اختلافات کی خبریں ہیڈ لائنز بن رہی ہیں۔ بل کی منظوری کے مرحلے سے مسلم لیگ ن میں ایک تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔ شہباز شریف، رانا تنویر، ایاز صادق اور خواجہ آصف ایک طرف نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ ن دو حصوں میں بٹ چکی ہے اور مشہور پارلیمانی واٹس ایپ گروپ بھی تقسیم ہو چکا ہے۔ خواجہ آصف وہ گروپ چھوڑ کر چلے گئے۔ شہباز شریف پر واپس آنے کا دباؤ بڑھ رہا رہا ہے۔ پنجاب میں فارورڈ بلاک کی باتیں شروع ہو چکی ہیں۔ مریم کا اسی وقت پر منظر عام پر آنا جب ن لیگ کی سیاست ایک الگ رنگ لے رہی ہے، ایک ماسٹر پلان سے کم نہیں لگتا۔

شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال سے خصوصی ملاقات میں ویسے تو یہ کہا گیا کہ ان کی ضمانت پر رہائی کے بعد مریم نواز ان سے خصوصی طور پر ملاقات کرنے لاہور سے آئیں لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ مریم قیادت کے بحران کو حل کرنے اور اپنا وزن شاہد خاقان عباسی کے پلڑے میں ڈالنے آئی ہیں کیونکہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ن لیگ میں شریف برادران کے حامیوں کے الگ الگ گروہ موجود ہیں۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ مریم نواز نے ان خبروں کی بھی نفی کی کہ نواز شریف نے ان کی غیر موجودگی میں علاج کرانے سے انکار کیا۔



نواز شریف کی مریم نواز کی غیر موجودگی میں علاج سے انکار کی خبر کوئی میڈیا گروپ نہیں بلکہ شہباز شریف سامنے لائے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مریم نواز واقعی کسی مفاہمت کی وجہ سے خاموش تھیں تو اب چانک ان کا منظر عام پر آ کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینا ڈیل کے ختم ہونے کی نشانی ہے یا مزید پکی ہونے کی؟

مریم نواز نے کہا کہ پارٹی ان سے جو کام لینا چاہے، وہ حاضر ہیں۔ کیا یہ ایک کھلا پیغام ہے کہ مریم نواز ایک دفعہ پھرمیدان میں نکل آئی ہیں؟ یا چپ کا روزہ عارضی طور پرتوڑا گیا تاکہ پارٹی کارکنان کو کچھ تسلی ہو سکے اور شہباز شریف پر وطن واپسی کے دباؤ کو کم کیا جا سکے؟

یہاں مریم کے لئے سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اگر تو مریم نواز اور مسلم لیگ ن ’ووٹ کو عزت دو‘ کی کھوئی ہوئی عزت واپس لانا چاہتے ہیں تو مریم نواز کو لندن اور پاکستان میں سے ایک کو چننا ہوگا۔ پاکستانی ووٹر کے ساتھ کھڑا ہو کر ہی مریم سیاست میں واپس آ سکتی ہے۔ پاکستان اور سیاست میں سے اب مریم کیا چنے گی؟
مزیدخبریں