ہر شخص کا ماضی اسے ہمیشہ یاد رہتا ہے اور اچھا بھی لگتا ہے۔ حال جب ماضی بنتا ہے تو نہ جانے کیوں اسکی کشش بڑھ جاتی ہے، چاہے ماضی تلخ ہی کیوں نہ ہو، ماضی میں بے شک آج سی آسودگی اہل قلم کو میسر نہ تھی، ایک ٹیلی وژن اور ایک دو اخبارات کے ایڈیشن کے سوا۔
اگر ماضی پہ نظر دوڑائیں تو ڈیرہ اسماعیل خان ادب اور فنون لطیفہ کے حوالے سے ہمیشہ زرخیز زمین ہی نہیں بلکہ اپنے اندر ادب کی ایک نایاب تاریخ بھی سموئے ہوئے ہے۔ خاص کر میرا آبائی محلہ سوہارا پنساری تو ادب کی آماجگاہ تھی۔ اندرون شہر اس محلہ نے قدآور ادبی شخصیات کو پھلنے پھولنے کے لیے اپنی زمین پیش کی، خدائے سخن عظیم مرثیہ گو شاعر مولانا محمود مولائی ، فتح اللہ التمش، مولانا محسن علی عمرانی، نصیر سرمد سائروی، فخر سلیمانی، عبداللہ یذدانی، صابر سلیمانی، محمد عباس ترابی، قیصر نجفی، خدا بخش نازش جیسی شخصیات کا مستقل مسکن ہو اور ادبی بیٹھکیں نہ ہوں تو ایسا ممکن نہیں تھا، یہی تو وجہ تھی کی عبدا لحمید عدم جیسے مہان شاعر نے اپنی پوسٹنگ کے بعد اسی محلہ کو ہی مسکن بنایا۔
اچھی طرح یاد ہے کہ شام ہوتے ہی باقاعدہ اور بے قاعدہ دکھائی دینے والوں میں نزیر اشک، مختار ثاقی ، سودائی ، تسلیم فیروز، پینٹر امان راہی، ماسٹر جبار ، فاروق جان آزاد، نئیر سرحدی، غفور بھٹی ، ظفر مرزا، گلزار بدر، فضل پیامی، جہانگیر ایڈووکیٹ جیسے صاحبان علم و قلم کو محلے کی کسی نہ کسی ادبی بیٹھک میں جاری مشاعرہ، مباحثہ، تنقید ، علم عروض پہ بحث میں حصہ لیتے ہوئے دیکھا اور خود بھی خاموشی سے اپنی علمی ادبی پیاس بجھانے اور علم میں اضافے کے لیے کسی نہ کسی بیٹھک کے کونے میں خاموشی سے بیٹھ جاتا۔ چائے کے دور، ثوبت کی تیاریاں، قہقے، دادیں ، لڈو کی چالیں وغیرہ یہ سب ہی ان ادبی بیٹھکوں کا معمول تھیں۔
ہلکی پھلکی رنجشیں اور دھڑے بندیاں بھی تھیں مگر وہ برداشت کا زمانہ تھا۔ یہی تو وجہ تھی کہ جناب احسان دانش، جناب فارغ بخاری، جناب خاطر غزنوی ، جناب عزت لکھنوئ جیسی شخصیات بھی محلہ سوہارا پنساری کو ادب کے حوالے سے اپنا گھر ہی سمجھتے تھے۔
بعض شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو ادبی حلقوں، بیٹھکوں اور مشاعروں میں باقاعدہ دکھائی دیتے ہیں مگر انکا تذکرہ کہیں نہیں ہوتا بلکہ اس قسم کی مسکین شخصیات کو کوئی یاد ہی نہیں کرتا جن میں سرفہرست جناب تصدق بابر جیسی ہستی ہے (ڈیرہ کے تمام قلمکار ان سے واقف ہیں)۔
بہرحال یہ تو تھا ماضی، حال میں تشویش تھی کہ ایسی ادبی بیٹھکوں، چائے خانوں کا رواج نہ صرف بتدریج کم ہوتا جا رہا ہے بلکہ ختم ہونے کے قریب ہے جہاں شاعروں، ادیبوں اور قلمکاروں کی بیٹھک نئی نسل میں مکالمے کا ذریعہ سمجھی جاتی ہوں، موجودہ نسل میں ادب و دانشوری کے فروغ کے لیئے ماضی کی ایسی بیٹھکوں کی کمی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا ۔ کیونکہ ادب انسان کے اظہار کا اعلٰی شاہکار ہے۔
اگر سماجی سائنس کا مطالعہ کیا جائے تو ادب و سماج کا رشتہ ایک اٹوٹ تعلق بن چکا ہے اور اس تعلق کو مزید تقویت محلوں میں قائم ادبی بیٹھکیں ، چائے خانے گفتگو اور بحث کو تقویت فراہم کرتے ہیں۔
میری نگاہ میں دوستی انسانی رشتوں میں سب سے زیادہ محترم ، معتبر اور مخلص رشتہ ہے اور یقینا مخلص دوست ذہنی صحت کے لیئے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میرے حلقہ احباب میں جتنے بھی مخلص دوست ہیں وہ کسی نہ کسی رنگ میں ادب کی کستوری اٹھانے، لگانے یا تقسیم کرنے والے ہیں اس سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ ادبی کستوری کی خوشبو کسی نہ کسی رنگ میں میسر آ جاتی ہے، ان میں چند دوست ایسے ہیں جن سے زندگی کے ہر موضوع پر گفتگو کر سکتا ہوں اور اسی فہرست میں سرفہرست ڈاکٹر آفتاب احمد اعوان جیسی قد آور شخصیت ہیں جو ایک درویش صفت انسان کے علاوہ شائستگی، متانت اور دوستداری کی حامل شخصیت ہیں بلکہ وجودی اور لسانی طور پر تہذیبی، ادبی اور ثقافتی گلستان کا معطر پھول نظر آتے ہیں۔ آبائی شہر جانے پر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات نہ ہو یہ ناممکنات میں سے ہے ۔ ہر ملاقات میں چائے کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ سے جڑے عنوانات ہی زیر موضوع رہتے ہیں۔
ایسے ہی گزشتہ سال دس دسمبر کی ایک سرد شام جب دھیرے دھیرے اتر کر رات کے پہلو میں جانے کی کوشش کر رہی تھی اور اسی دن چائے کے شوقین افراد چائے کا عالمی دن منانے میں مصروف تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے خوشخبری سنائی کہ آج ہم چائے ڈیرہ کی سرزمین پر سعد عبداللہ کی کوششوں اور سر پرستی میں کھلنے والی ادب سے پیوستہ اور وابسطہ افراد کے لیے گوشہِ سکون یعنی “بیٹھک“ میں تمام مشروبات کی مرشد چائے کی چسکیوں سے تسکین قلب و ذہن حاصل کریں گے۔ صاحب فلسفہ دوست جاوید علوی اور بیٹے دارین عمرانی کو ساتھ لے کر ڈاکٹر صاحب کی سر براہی میں پلازہ کی سیڑھیاں اتر کر جب “بیٹھک“ میں پہلا قدم رکھا تو حیرتوں کے پردے اترتے گئے۔ چند کتابوں سے مزین شیلف ، دیواروں پہ کمال پینٹنگز، معروف لکھاریوں کے نام اور خاص کر مجھ جیسے ادب پرستوں کے مرشد سعادت حسن منٹو کی تحریر پر جب نظر پڑی تو سر خود بخود ایسی مہان ہستی کے احترم میں جھک گیا۔
دیوار پر سلیقے سے سجی سرائیکی اجرک اور چنگیر دیکھ کر بے ساختہ زبان سے نکلا “ڈاکٹر صیب چَس آ گئی ہے“ مدہم آواز میں نیم کلاسیکل موسیقی کانوں میں رَس گھولتی رہی۔ ادبی پاروں، ٹرکوں کے نعروں اور شعراء کے شہہ پاروں سے سجی دیواریں سعد عبداللہ کی فنون لطیفہ سے دلی وابستگی اور ادب پرستی کی گواہی دے رہی تھیں۔
دیواروں پہ لکھے ناموں ، کرسیوں پہ بیٹھے ادب پرستوں، شیلف میں سجی کتابوں اور لڈو کھیلتے جوانوں سے نگاہیں اس وقت ہٹیں جب ڈاکٹر صاحب نے کہا وجاہت بھائی ان سے ملیں یہ ہیں بیٹھک کے روح رواں سعد عبداللہ، گردن گھمائی تو نفیس مزاج، جذبوں سے بھرپور نوجوان آنکھوں پر پیدائشی اور شعور کے ارتقاء کے سفر کی پرانی عینک اتارنے کے بعد کی خوبصورت فریم اور شیشوں والی عینک اور نظر میں شوخی ، لبوں پہ ہلکی مسکراہٹ سجائے ہوئے سعد عبداللہ کے چہرے پہ میری نظریں محو طواف ہو گئیں۔ ہلکا پھلکا تعارف ہوا۔ چاہ سے لبریز چائے بمعہ دو عدد بسکٹ سلیقے سے پیش کی گئی ، یقین کریں ایسا ادبی ماحول دیکھ کر دل کے تاروں میں سُر کی مَشر میل ہونے لگی دل کو تسلی ہوئی کہ چند سال پہلے جو گڑھے کھودے گئے، فرقہ واریت اور مذہبی تعصب کی آگ دہکا کر، دہشت گردی کے الاؤ میں ادبی بیٹھکیں ، تہوار، محفلیں جلائی گئیں، نفرت کی آگ سے اٹھے ہوئے کالے دھوئیں میں ادب سے وابستہ ، امن سے پیوستہ فنون َ لطیفہ کے دلدادوں کی جو سانسیں گھٹنے لگ گئیں تھیں اور اہل فن و اہل قلم خوف کے مارے گھروں میں قید ہو کہ رہ گئے تھے اور لگتا تھا کہ میرا ادبی شہر ، شہر خاموشاں میں تبدیل ہو گیا ہے۔ ایسے ماحول میں سعد عبداللہ کی “ بیٹھک“ محبت اور امن کی بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی جس نے ادیبوں ، شاعروں، مصوروں، قلمکاروں کے لیئے انکی مطلوبہ آکسیجن فراہم کرنے کی بنیاد رکھی۔ میں نے محسوس کیا کہ سعد عبداللہ اپنی خاموش زبان لیکن بولتی آنکھوں سے کہہ رہا تھا عمرانی صاحب علم اور تعصب کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے اور انسان کو اپن تخلیقی قوت اور صلاحیتوں کو کسی بھی آزمائیش کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیئے۔
الحمد اللہ جیسی ادبی رونقیں ماضی میں تھیں اب وہی رونقیں ، محفلیں، محبتیں پھر سے “بیٹھک“ میں آباد ہیں۔ ویسے کہنے کو تو بیٹھک ایک ادبی چائے خانہ ہے لیکن ہم جیسے ادب کے تشنہ لوگوں کے لیے “سبیل“ ہے۔ روزانہ چار بجے سہہ پہر سے رات 11 بجے تک بلا تعصب و فرقہ اس ادبی چوپال میں ادیب ، لکھاری ، مصور ادب کی کستوری کو تقسیم کرنے کے لیے آپس میں مل بیٹھتے ہیں اوراپنے حصے کی خوشبوئیں بکھیرنے کا کام سر انجام دے رہے ہیں کیونکہ سب قلمکار جانتے ہیں کہ حضرت رومی نے کیا کہا تھا “ از محبت خارہا گُل می شود“ یعنی محبت سے کانٹے بھی گلاب بن جاتے ہیں۔
یہ زندگی کا ایک مُسلم سچ ہے کوئی بھی تبدیلی بغیر کسی سماجی عمل کے ممکن نہیں اور سعد عبداللہ نے یہ ثابت کر کے دکھایا اور “بیٹھک“ کی بنیاد رکھ کر ببانگ دہل کہہ رہا ہے۔
میں ایسی کَلا کو لایا ہوں
کہ دھاگہ لڑے تلواروں سے