لیکن تب تک کے لئے بطور معاشرہ ہمیں جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ ایک صحیح رویہ اور صحیح سوچ ہے، جس سے ہم کوسوں دور ہیں۔ غور طلب یہ ہے کہ اس نادیدہ جنگ میں بالآخر جیت کے بعد کیا ہم خود کو جیت کا مستحق کہلا پائیں گے؟
حکومتی حکمت عملی کی تان تو لاک ڈاؤن کریں یا نہ کریں، کیوں کریں، کیسے کریں، کب شروع کریں یا ختم کریں، کرفیو والا کریں یا بغیر کرفیو والا کریں، ایلیٹ کلاس والا کریں یا غریبوں والا کریں کی جھلیکوں سے لطف اندوز کرتا ہوا، ’شٹر ڈاون والے لاک ڈاؤن‘ پر ایک وقفہ لینے کے بعد بالآخر ’سمارٹ لاک ڈاون‘ پر آن ٹوٹا ہے۔ جس کے گن گاتے ہوتے شاہ کے وفادار یہ بے پر کی اڑا رہے ہیں کہ حضور کی فطانت نے تو نیویارک کے ’گورنر‘ کو بھی پیچھے لگا لیا ہے۔ مخالفین جو متانت کی دوڑ میں زیادہ آگے نہیں رہے، ان کی باچھیں موذی وبا کے غلبے پر فقط اس لئے کھل رہے ہیں کہ اب وہ حکومتی ناک کو رگڑا کھاتے دیکھ سکیں گے۔
باقی جنگ کی منصوبہ بندی کچھ یوں کی گئی ہے کہ قوم کی تمام امیدوں کا پیکر اگلی صفوں میں طبی عملے کے بے تیغ سپاہی ہیں، جن کا دوبدو مقابلہ جدید ماڈل والے وائرس سے ہے۔ بے سروسامان، لاوارث سپاہیوں کو مناسب ہتھیاروں سے کیا مزین کیا جاتا ہم تو ان کی دل شکنی کا بھی کوئی موقع نہیں جانے دے رہے۔ عوام اور حکومت دونوں ان کے لاک ڈاؤن کی بنیادی سائنس پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ سونے پر سہاگہ ان خطروں کے کھلاڑیوں کی جگہ تو شہیدوں کی فہرست میں بھی نہیں رکھی گئی کیونکہ کوئی اس فہرست کے اوپر تو بوٹ رکھ گیا ہے۔
عبادت گاہوں میں بیٹھی ایک کمک نے کرونا کو ٹانگوں کے درمیان سے تین فٹ یا چھ فٹ کے محفوظ راستے دینے پر ایک فکری مباحثہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے چونکہ اتفاق میں برکت ہے، تو کیوں نہ سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا جائے؟
ٹی وی پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے والے جنگی رزمیوں کے ماہرین جن سے یہ توقع کی جاتی رہی تھی کہ وہ احتیاطی تدابیر کو پیغام بنا کر ناظرین کا لہو گرمائیں گے، ان میں زیادہ تر تو نیم حکیم خطرۂ جاں ثابت ہوئے۔
وہ تاجر برادران جن کا دھندہ وبائی مرض کی وجہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہا اب وہ ڈکار مارے عمرہ اور حج کی نیت سے جمع کی گئی ریزگاری گن رہے ہیں۔ جب کہ دیگر سمارٹ لاک ڈاؤن کے بعد اس توکل کے ساتھ میدان میں قدم رکھ رہے ہیں کہ وہ بھی ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کی بدولت اپنے بھائیوں کی پیروی کرتے ہوئے مدینہ منورہ کی فلائیٹ پکڑ سکیں۔
انفرادی سطح پر بازاروں میں جہاں مرد حضرات لہو گرمانے کے لئے پکوڑوں اور سموسوں پر جھپٹتے، پلٹتے اور پھر پلٹ کر جھپٹنے میں سرگرداں نظر آتے ہیں، وہاں اب خواتین بھی بچوں کو ساتھ لئے ’پیراہن‘ کی تلاش میں اس نیت سے پھر رہی ہیں کہ خدانخواستہ اگر کرونا سے مڈ بھیڑ ہو گئی تو کہیں انہیں ’سامان زر‘ نہ ہونے کی وجہ سے شرمندگی ہی نہ اٹھانی پڑ جائے۔
اللہ نہ کرے اس وبائی مرض سے مزید صورتحال بگڑے یا مزید جانی نقصان ہو۔ لیکن کاش کرونا ہمیں یہ سبق ازبر کرا جائے کہ کسی بھی گھمبیر صورتحال میں سمارٹ وزیر اعظم کا سمارٹ فیصلہ ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے ہر شہری کا ’سمارٹ‘ انفرادی اور معاشرتی رویہ درکار ہوتا ہے۔