حامد میر کے مطابق گذشتہ دنوں حزب المجاہدین کے مرکزی کمانڈر ریاض نائیکو جن کا جہادی نام محمد بن قاسم تھا انہیں بھی خلافت اسلامیہ داعش کے کشمیر ونگ نے بھارتی فوج کو کی اور اسکے نتیجے میں ہونے والے آپریشن میں ریاض نائکو کو مار دیا گیا۔
حامد میر نے ریاض نائیکو کے ایک مبینہ استاد جو کہ بقول حامد میر ایک ریاضی کے استاد ہیں اور عمر کے آخری حصہ میں ہیں ان سے اپنی ٹیلی فونگ گفتگو کا حال کالم میں لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بزرگ نے کہا کہ مجھے کوئی شک نہیں ریاض نائیکو کی مخبری داعش نے کی جسے پچھلے سال بھارتی خفیہ اداروں نے قائم کیا ہے اور اب داعش والے سیف اللہ میر کو میر جعفر قرار دے رہے ہیں۔پھر بزرگ نے دوبارہ بولنا شروع کیا اور کہا کہ حزب المجاہدین نے ریاض نائیکو کی جگہ سیف اللہ میر کو نیا کمانڈر بنا دیا ہے اور بھارتی خفیہ اداروں کے ایجنٹوں نے سیف اللہ میر کو میر جعفر قرار دینا شروع کر دیا ہے کیونکہ سیف اللہ میر نے بھی ریاض نائیکو کی طرح خلافتِ اسلامیہ کی حمایت سے گریز کیا ہے کیونکہ خلافت کا نعرہ لگانے والوں نے آزادیٔ کشمیر کے متوالوں کو متحد کرنے کے بجائے انہیں آپس میں لڑانے کے اسباب پیدا کیے ہیں. ان بدبختوں کو یہ پتا نہیں کہ میر جعفر کا کشمیر کے میروں سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ نجف سے آنے والا سید تھا۔
اس کا نام سید جعفر علی خان نجفی تھا۔ میر تو اس کا ٹائٹل تھا کیونکہ وہ میرِ سپاہ یعنی آرمی چیف تھا جبکہ کشمیر کے میر یا تو میر سید علی ہمدانی ؒ کی نسل سے ہیں یا وسط ایشیا سے آنے والے صوفیاء کے ساتھی۔ افسوس کہ آج بھارتی خفیہ اداروں کے ایجنٹ حزب المجاہدین کے نئے کمانڈر سیف اللہ میر کو میر جعفر کی اولاد قرار دے رہے ہیں جس کا کشمیر سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔
بزرگ کی بات محمد بن قاسم کے المیے سے شروع ہوئی اور میر جعفر کے کردار پر ختم ہورہی تھی۔ میر جعفر اور میر صادق دراصل ہندوستان میں نہیں بلکہ عراق میں پیدا ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے سلیمان بن عبدالملک بن کر محمد بن قاسم کو قتل کیا اور آج کے ہر محمد بن قاسم کو بھی راجہ داہر سے نہیں بلکہ میر جعفر جیسے مسلمانوں سے خطرہ ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ ریاض نائیکو کا جہادی نام محمد بن قاسم تھا اور اس محمد بن قاسم کا استاد مجھے یہی بتا رہا تھا کہ اس کے شاگرد کی موت کسی راجہ داہر کی وجہ سے نہیں بلکہ ان مسلمانوں کی وجہ سے ہوئی جو خلافتِ اسلامیہ قائم کرنے کے دعویدار ہیں لیکن حقیقت میں بھارتی خفیہ اداروں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
یاد رہے کہ کشمیر میں داعش کی موجودگی کے بارے میں سیکیورٹی ماہرین اور نشریاتی ادارے ایک عرصہ سے نشاندہی کر رہے تھے، کشمیر میں داعش سے وابستہ کسی بڑے جنگجو لیڈر کی آخری ہلاکت گذشتہ برس مئی میں ہوئی تھی۔ کشمیر میں لڑنے والے عسکریت پسند گروہ اور تنظیمیں اس وقت ایک دوسرے کے خلاف کشمیری جہاد میں حکمرانی کے لئے مصروف جنگ ہیں۔ جس کے بعد کشمیرکی آزادی کے لئے مزاحمتی تحریک پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ یہ معاملہ اسکی اخلاقی حمایت کرنے والے ممالک اور سیاسی قوتوں کو بھی سوچنے پر مجبور کرسکتا ہے۔