اس حوالے سے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ یوم علی کے حوالے سے جلوسوں میں سوشل ڈسٹینسنگ اور محدود شرکت کے ساتھ یہ جلوس نکالنے کی اجازت تھی لیکن کسی بھی ایس او پی پر عمل نہ ہوسکا۔ فوٹیجز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کراچی میں نکلنے والے جلسوں میں شرکا نے محفوظ فاصلہ رکھا ہے اور نہ ہی اکثریت نے ماسک پہن رکھے ہیں۔ اور جلوس کے شرکا کی تعداد کرونا کے حوالے سے خطرناک حد تک پہنچی ہوئی تھی۔
https://twitter.com/gtvnetworkhd/status/1261186725671559168?s=08
نیا دور کو سندھ وزیر اعلیٰ سیکریٹیریٹ میں انتظامی معاملات کے حوالے سے اہم عہدے پر تعینات افسر نے نام ظاہر نہ کرنےکی شرط پر بتایا کہ یہ بات واضح رہنی چاہیئے کہ وفاق سمیت دیگر صوبوں کی طرح سندھ حکومت بھی مذہبی قیادت کے سامنے بے بس ہے۔ تاہم اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ سندھ حکومت کا جھکاؤ اہل تشیع کی جانب زیادہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 12 مئی کو ایک نوٹیفکیشن سامنے آیا تھا جس میں بظاہر نام لئے بغیر یوم علی کے جلوسوں کے لئے راہ ہموار کی گئی تھی تاہم اسے بعد میں جعلی قرار دیا گیا۔ لیکن سندھ حکومت نے حکمت عملی کے تحت اس نوٹیفکیشن کی تردید کے حوالے سے زیادہ تشہیر نہیں کی اور اس کنفیوژن کا فائدہ یوم علی کے موقع پرمذہبی قیادت کو فراہم کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامی طور پر بھی یہ کنفیوژن برقرار رکھہ گئی اندرون سندھ یوم علی کے جلوسوں کے منتظمین اور شرکا کو گرفتار کیا گیا تاہم کراچی میں کھلی چھٹی دی گئی
سوشل میڈیا صارفین اس معاملے پر سندھ حکومت پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے اکثر سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ اگر ان جلسوں کی اجازت دی جا سکتی ہے تو آپ روز کس خطرے کے بارے میں آکر ہمیں لیکچر دے رہے ہوتے ہیں؟
چند صارفین نے اسے شیعہ سنی تناظر میں دیکھا اور کہا کہ آپ کا حکم صرف سنیوں کے خلاف ہی چلتا ہے؟ سنی اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
https://twitter.com/amir934/status/1260367177171046407?s=08
اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ کراچی میں آج بھی پانچ سو سے زائد کرونا کے کیسز سامنے آچکے ہیں۔ ایسے میں جب ایک طرف وزیر اعلیٰ سندھ کرونا کے حوالے سے لاک ڈاؤن پر زور دیتے ہیں اور سب سے اس بیماری کو سنجیدہ لینے کی اپیل کرتے اور دوسری طرف مذہبی جلوسوں کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے تو یہ سندھ حکومت کی اپنے قول و فعل میں تضاد کو واضح کر رہی ہے۔