برطانوی سامراج نے انیسویں صدی کے اواخر میں اپنے سامراجی مفادات کے تحت بلوچ گُلزمین کو ایک طرف ڈیورنڈلائن کے ذریعے تقسیم کر دیا تو دوسری طرف گولڈ سمتھ لائن کے ذریعے ایک اور مصنوعی سامراجی لکیر کھینچ کر ناصرف بلوچ وطن کو جغرافیائی طور پر دو بڑے حصوں مغربی اور مشرقی بلوچستان میں تقسیم کر دیا بلکہ بلوچ قوم کو سماجی، معاشی اور معاشرتی حوالوں سے بھی تقسیم کر کے ان کی قومی وحدت اور مرکزیت پر کاری ضرب لگائی۔ چنانچہ گولڈ سمتھ لائن کے دونوں اطراف میں آباد بلوچ محکومی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ جہاں انہیں ریاستی جبر کا سامنا رہا وہاں انہیں نوآبادیاتی استحصال، غربت، بھوک اور بے روزگاری جیسے دیوہیکل مسائل نے بھی گھیر لیا۔ معاشی اور اقتصادی حوالے سے انتہائی پسماندہ اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے ایرانی تیل کے کاروبار کو اپنا ذریعہ آمدن بنایا جو ان کے زندہ رہنے کا واحد وسیلہ اور آخری سہارا بنا۔
گولڈ سمتھ لائن کے دونوں اطراف کے بلوچ یہ کاروبار انتہائی محدود پیمانے پر صرف اپنی روزمرہ کی ضرورت اور گزر بسر کے لیے کیا کرتے تھے۔ اس سے بمشکل انہیں دو وقت کی روٹی ہی مل سکتی تھی۔ یہ ایک جان جوکھوں والا کام تھا۔ ایک طرف انتہائی مشکل، تنگ اور دشوار گزار پہاڑی راستے، کچی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکیں جبکہ دوسری طرف دونوں ریاستوں کی سکیورٹی فورسز سے بھی انہیں جانی اور مالی خطرات لاحق تھے جو ان کے ساتھ ناصرف غیر انسانی سلوک روا رکھتی تھیں بلکہ بعض اوقات بلوچ محنت کشوں کو اپنی قیمتی جانوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے تھے۔ اس لیے یہ کاروبار ان کے لیے خونی کاروبار تھا لیکن اس کے سوا ان کے پاس کوئی اور چارا اور سہارا ہی نہیں تھا۔ اس کے باوجود چند سال پہلے باڈر پر کاروبار کا ایک آزادانہ ماحول تھا اور کوئی خاص بندش نہیں تھی لیکن اب ایک طرف سکیورٹی کے نام پر باڈر کو انتہائی سخت کر دیا گیا ہے جس سے مقامی لوگوں کو ناصرف آنے جانے بلکہ کاروبار کے لیے بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ایک خاص طبقے کو ہو رہا ہے جسے عرف عام میں مافیا کہا جاتا ہے۔
اب اس کاروبار پر اسی مافیا کا مکمل کنٹرول و قبضہ ہے جس میں سیاست دان، صوبائی وزرا، اراکین اسمبلی، انتظامی افسران و ان کے چہیتے و من پسند کاروباری پارٹنر و دیگر لوگ شامل ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ کے افسران اس مافیا کے سہولت کار ہیں جنہوں نے بدنام زمانہ ٹوکن سسٹم کو رائج کر کے اس پورے کاروبار پر اپنا مکمل کنٹرول جمایا ہے۔ بلکہ گذشتہ باپ حکومت کے دوران وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں ڈپٹی کمشنر کی پوسٹ کی باقاعدہ بولی لگی تھی جبکہ موجودہ صوبائی حکومت میں زیادہ تر وہی پرانے چہرے نظر آتے ہیں۔ ڈی سی آفس ٹوکن مافیا کا کاروباری دفتر بنا ہوا ہے جہاں ٹوکن کے سارے لین دین طے ہوتے ہیں۔ یہ اب ڈپٹی کمشنر کی صوابدید ہے کہ کون سی گاڑی بارڈر پار جاتی ہے اور کون سی نہیں جاتی۔ کس گاڑی کو ٹوکن دینا ہے اور کون سی گاڑی کو نہیں دینا، اس کا فیصلہ ڈپٹی کمشنر کو کرنا ہے کہ کس وزیر یا با اثر و طاقتور شخصیت کو کتنا ٹوکن ملنا چاہیے اور انتظامیہ کے افسران کو کتنا حصہ ملنا چاہیے۔
اس نوآبادیاتی پالیسی کے تحت اگر ایک گاڑی جس کا مالک عام بلوچ محنت کش ہے، ایران جاتی ہے تو پھر کئی روز حتیٰ کہ ایک دو مہینے تک اس کی باری دوبارہ نہیں آ سکتی۔ ڈی سی کی جانب سے اس طرح کا غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک بلوچ محنت کشوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے۔ جبکہ یہی ٹوکن مارکیٹ میں دو سے تین لاکھ روپے فی ٹوکن کے حساب سے فروخت کیے جاتے ہیں کیونکہ نوبت میں ایسے بااثر لوگوں کے نام ڈال دیے جاتے ہیں کہ جن کے پاس اپنی گاڑیاں نہیں ہیں۔ پھر وہ یہ ٹوکن دوسرے زمیاد والوں کے ہاں بیچ کر بھاری بھرکم منافع کماتے ہیں۔
گاڑیوں کی رجسٹریشن اور ٹوکن کی تقسیم میں زبردست ہیراپھیری کی جاتی ہے۔ جو اصل گاڑی مالکان ہیں ان کو ٹوکن حاصل کرنے یا لسٹ میں اپنا نام ڈلوانے کے لیے دربدر بھٹکنا پڑتا ہے۔ سفارش، اثر و رسوخ، رشوت اور طاقت کا عمل دخل بہت زیادہ ہے جبکہ ایک غریب زمیاد والے کے پاس سفارش کی طاقت ہوتی ہے اور نا ہی رشوت کی۔ یہ عمل صریحاً بلوچ محنت کشوں کے ذریعہ معاش پر بندش اور انہیں آزادانہ کاروبار کے حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ بلکہ یہ ٹوکن سسٹم بلوچ محنت کشوں پر ایک وحشیانہ معاشی حملہ ہے تو دوسری طرف ضلعی انتظامیہ سیمت علاقے کے وزرا اور ایم پی ایز کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہے جسے وہ اپنے حق میں اور مخالفین کے خلاف باآسانی استعمال کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ سیاسی جماعتوں کی زبان بندی کے لیے بھی ان کے مقامی قائدین اور کارکنوں کو نوازا جاتا ہے۔
تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
کیچ میں آل پارٹیز اتحاد ایک نمائشی اور برائے نام اتحاد ہے جس کا کوئی کردار ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایسے اہم اور حساس مسئلے پر بھی محنت کشوں کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ایک بدعنوان ڈپٹی کمشنر کے ساتھ کھڑے ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس ناانصافی، غیر انسانی استحصال اور معاشی قتل کے خلاف کسی بھی سیاسی پارٹی یا رہنما اور نام نہاد سول سوسائٹی کے کارکن کو بولنے کی جرات نہیں ہوتی کیونکہ وہ سب اس انسان کش اور محنت کش دشمن گھناؤنے کاروبار اور مکروہ جرائم میں شریک ہیں جس کے باعث بلوچ محنت کش اس استحصال کی چکی میں پس رہے ہیں۔ حالانکہ اس کاروبار میں اصل انسانی محنت اور حقیقی کردار بلوچ محنت کشوں کا ہے جو بارڈر سے لے کر مارکیٹ تک تمام مصائب، مشکلات اور اذیتوں کو سہنے کے باوجود انتہائی ذلت اور محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ تمام منافع مافیا کے لوگ اور ان کے حواری لے رہے ہیں اور دولت کے انبار لگا رہے ہیں۔
مافیا اپنے کردار اور اعمال سے ناصرف محنت کش دشمن ہے بلکہ ریاست دشمن بھی ہے۔ ایک طرف اس نے اپنے ہی شہریوں کے ذریعہ معاش اور روزگار پر قبضہ کر کے ان کے دلوں میں نفرت اور شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے تو دوسری طرف انہوں نے اس کاروبار کی ہئیت اور شکل ہی تبدیل کر دی ہے۔ اسے سمگلنگ کی شکل دے کر بغیر ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کے اربوں روپے منافع کما رہے ہیں اور سرکاری خزانے کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک سرکاری دستاویز کے مطابق یہ رقم سالانہ 275 ارب روپے بنتی ہے لہٰذا ریاست کو حقوق کی جدوجہد کرنے والے بلوچوں سے نہیں بلکہ خطرہ اس مافیا سے ہونا چاہیے جو اپنے کالے دھن کے ذریعے ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
اگر ریاست کے پاس طاقت ہے تو وہ اس مافیا اور اس کے سہولت کاروں کو نکیل ڈالے جس نے اس کاروبار کو سمگلنگ کی شکل دے دی ہے۔ اس کا نہ کوئی سرکاری ریکارڈ ہوتا ہے اور نہ حساب کتاب کیونکہ یہ ایک ان فارمل کاروبار ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے کالی معیشت (Black Economy) یا غیر سرکاری معیشت کا کالا دھن کہا جاتا ہے جو ریاستی اختیار و حساب کتاب سے باہر ہے۔ اس کی کوئی جانچ پڑتال نہیں کی جا سکتی جبکہ مافیا اسے دن دہاڑے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناک کے نیچے چلا رہا ہے۔ بڑے بڑے سیٹھ، سوداگر، غیر مقامی لوگ اور تیل مافیا کے کارندے بڑے بڑے کنٹینروں اور آئل ٹینکروں کے ذریعے ایرانی پیٹرولیم مصنوعات، ایل پی جی گیس اور اشیائے خورونوش وہاں سے انتہائی سستے داموں خرید کر پھر انہیں دوسرے صوبوں (جہاں انہیں لے جانے پر پابندی ہے) میں انتہائی مہنگے داموں فروخت کر کے ہوشربا منافع کماتے ہیں۔ اس کے باعث بلوچ بارڈر سے متصل علاقوں میں ان پیٹرولیم مصنوعات سمیت خوردنی اشیا کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ لیکن یہی ایرانی تیل اور اشیائے صرف کراچی سے لے کر لنڈی کوتل تک، چمن سے لے پشاور تک باآسانی دستیاب ہوتی ہیں۔
اس کے نتیجے میں ناصرف مقامی مارکیٹ اور کاروبار کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ مقامی مارکیٹ میں ان اشیا کی قیمتوں کو پَر لگ گئے ہیں۔ مہنگائی کا ایک طوفان آیا ہوا ہے۔ اس لیے ڈسٹرکٹ کیچ کا شمار پاکستان کے انتہائی مہنگے ترین اضلاع میں ہوتا ہے جہاں فوڈ انفلیشن یعنی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ اور انتہائی بلند ترین سطح پر ہے جبکہ فی لیٹر ایرانی پٹرول 280 سے 300 روپے تک فروخت کیا جاتا ہے جو ظلم کی انتہا ہے لیکن کوئی پوچھنے والا، روکنے اور ٹوکنے والا نہیں۔ اگر پاکستان میں تیل یا اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی آ بھی جائے تو اس کے اثرات اور فوائد ان علاقوں کے عوام تک نہیں پہنچتے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں برائے نام ہیں بلکہ اسسٹنٹ کمشنروں کی سربرائی میں بننے والی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے سربراہان تو خود ٹوکن اور تیل کے غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہیں۔
بلوچ اس کاروبار میں بحیثیت مزدور، محنت کش اور دہاڑی دار کام کر رہے ہیں۔ ان کی شراکت اور سرمایہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کا سرمایہ صرف اور صرف ایک زمیاد گاڑی ہے جس کی نقل و حرکت بھی ڈپٹی کمشنر کے نوآبادیاتی حکم کی پابند اور ایک پرچی (ٹوکن) کی محتاج ہے۔ کالے دھن کے ان سوداگروں نے اس کاروبار کو ناجائز دولت کمانے کا بہت بڑا ذریعہ بنا کر بلوچ محنت کشوں کا شدید استحصال کر رہے ہیں۔ یہ کاروبار مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے ان کی معاشی لوٹ کھسوٹ کا سب سے بڑا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ بارڈر بلوچ کا، سرزمین بلوچ کی، محنت اور انسانی وسائل بلوچ کے ہیں لیکن اسے ایک پرچی کا محتاج بنا کر اس کی انتہائی تذلیل اور تضحیک کی جا رہی ہے۔
اس اذیت ناک صورت حال میں انسانی محنت بھی مجروح اور گھائل ہو رہی ہے۔ اس کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کہ آخر وہ کس مرض کی دوا ہیں۔ اس ضمن میں ان کا کردار انتہائی مایوس کن ہے جو اتنے بڑے معاشی قتل اور ناانصافی پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ ان کی اس مجرمانہ خاموشی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس لیے اب عوام ان سے لاتعلقی اختیار کر رہے ہیں اور اپنے روزمرہ مسائل اور بنیادی انسانی حقوق کی بازیابی کے لیے خود سڑکوں پر نکل رہے ہیں جو ایک خوش آئند عمل ہے۔
مافیا اور اس کے سہولت کاروں کے کردار کے خاتمے اور اس کاروبار کو قانونی و دستاویزی شکل دینے کے لیے اسے باڈر ٹریڈ کے مسلمہ اصولوں کے مطابق بنانے کے سوا اس کا کوئی اور حل ممکن ہی نہیں تا کہ اس کے فوائد بلوچ محنت کشوں کے ساتھ ساتھ بلوچ بارڈر کے قرب و جوار کے علاقوں کے عام عوام تک حقیقی معنوں میں پہنچ سکیں اور سب سے پہلی اور آخری ترجیح وہاں کے عوام ہونے چاہئیں نہ کہ مافیا، غیرمقامی لوگ اور دوسرے صوبے لیکن اس استحصالی نظام کی طرح اس کے مخالفین اور گماشتے اتنے نااہل، بدعنوان اور بددیانت ہیں کہ وہ اسے دستاویزی شکل دینے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے کیونکہ قانونی شکل اختیار کرنے سے بیوروکریٹک اور پولیٹکل اشرافیہ دونوں کے مالی اور طبقاتی مفادات کو شدید گزند پہنچ سکتی ہے۔
چونکہ سمگلنگ کے فوائد مافیا کو ملتے ہیں اور وہ اس کے سب سے بڑے بینفیشری ہیں جبکہ تجارت اور کاروبار کے فوائد عام لوگوں کو ملتے ہیں اس لیے وہ تجارت کی بجائے سمگلنگ اور آزادانہ کاروبار کی بجائے ٹوکن کے اسی نظام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہاں عوام کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن عوام کے پاس اپنی حیثیت منوانے کا صرف ایک ہی راستہ رہ گیا ہے اور وہ ہے عملی جدوجہد اور عوامی مزاحمت کیونکہ عوامی طاقت ہمیشہ مافیا کی طاقت سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوتی ہے۔ جب تک استحصال کا یہ نظام رائج ہے، مافیا اور بیوروکریسی کے اہلکار بلوچ محنت کشوں کی بوٹیاں یونہی نوچتے رہیں گے۔