عدالتی فیصلے کے نتیجے میں مذہبی بنیاد پرست تنظیم تحریک لبیک کی جانب سے انتہائی شدید اور پرتشدد رد عمل سامنے آیا۔ ملک بھر میں مظاہروں اور دھرنوں کے ذریعے ریاست کو یرغمال بناتے ہوئے تحریک لبیک کے احتجاج نے نجی و سرکاری املاک جلا کر اور ملک کو مفلوج کر کے دو دنوں میں ڈیڑھ ارب روپے کا نقصان کیا۔ آخر کار حکومت اور احتجاج کرنے والی جماعت تحریک لبیک میں ایک معاہدہ طے پایا جس کی رو سے حکومت نے احتجاج کرنے والوں کی تمام شرائط کو من و عن قبول کر لیا۔ ان شرائط میں سے ایک شرط آسیہ بی بی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنا بھی تھی۔
آسیہ بی بی کے کیس نے جہاں ایسے بہت سے نقائص کی نشاندہی کی جو ہماری سماجی اقدار کو کھوکھلا کر رہے ہیں وہیں اس نے میری توجہ ملکی مجرمانہ انصاف کے نظام (کریمنل جسٹس سسٹم) کی جانب بھی مبذول کروا دی۔ آسیہ بی بی کی بے گناہ دس سالوں پر مبنی قید سے اس سے ہمدردی ہی کی جا سکتی ہے لیکن پھر بھی وہ ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہے جسے آزادی کے اجالے دیکھنا نصیب ہو گئے ہیں۔ جبکہ لاتعداد بے گناہ افراد اس فرسودہ، کمزور اور استحصالی نظام قانون کے باعث ابھی بھی جیلوں میں قید انصاف ملنے کے منتظر ہیں۔ ہمارے ملک کا کریمنل جسٹس سسٹم پولیس عدالتوں اور جیلوں پر مبنی ہے۔ یہ مشینری اس وقت حرکت میں آتی ہے جب کوئی فرد سیکشن 154 (کوڈ آف کریمینل پراسیجر) کے تحت ایف آئی آر درج کرواتا ہے اور پولیس مشکوک فرد کو اپنی تحویل میں لیتی ہے۔ کریمینل لا کی گائڈ لائن کے مطابق پولیس کسی بھی جرم کے الزام میں ملوث شخص کو چوبیس گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے کی پابند ہے، جہاں مجسٹریٹ یہ تعین کرے گا کہ کیس میں کوئی جان ہے یا نہیں۔ اس کے بعد پولیس کوڈ آف کریمینل پراسیجر کی اور پولیس ایکٹ 1934 کی روشنی میں تفتیش کا آغاز کرتی ہے اور جب تفتیش مکمل ہو جاتی ہے تو تفتیشی افسر (سی آر پی سی) کے سیکشن 173 کی رو سے کورٹ کو چالان جمع کروانے کا پابند ہوتا ہے۔ جونہی عدالت میں چالان جمع کروایا جاتا ہے تو عدالتی کارروائی کا آغاز ہو جاتا ہے اور سزا یا رہائی کا تعین کر دیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار بے حد سادہ اور آئیڈیل دکھائی دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس طریقہ کار کو پولیس اور عدالتوں کی جانب سے محض خاص کیسوں میں ہی اپنایا جاتا ہے۔
سیکشن 167 کے مطابق کسی بھی ملزم کو 14 دن سے زائد ریمانڈ پر نہیں رکھا جا سکتا لیکن اس کے باوجود عدالتیں پولیس کی درخواست پر ریمانڈ میں توسیع کر دیتی ہیں اس کے علاوہ ایک تفتیشی افسر جو کہ زیادہ تر اے ایس آئی، سب انسپکڑ یا انپسکٹر ہوتا ہے وہ نہ تو ثبوت حاصل کرنے کیلئے بھرپور محنت کرتا ہے اور نہ ہی اصل گواہوں کو ڈھونڈنے کا کشٹ اٹھاتا ہے۔ زیادہ تر مواقع پر پولیس کی رپورٹ شکایت کنندہ کے مؤقف پر ہی مبنی ہوتی ہے۔
تفتیشی افسران ٹریننگ کی عدم فراہمی کے باعث جدید بنیادوں پر ثبوت اکھٹے کرنے، تفتیشی طریقہ کار اور فرانسک کے جدید طریقوں سے نا آشنا رہتے ہیں۔ ان صلاحیتوں کی کمی کے باعث اکثر و بیشتر پولیس کی تیار کردہ تفتیشی رپورٹیں درست نہیں ہوتیں۔
مزید برآں طویل کریمنل طریقہ کار کے باعث دفاع کرنے والا شخص کئی سال بنا کسی سزا کے فیصلے کے ہی جیل میں بتا دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں قیدیوں کی آبادی بیحد زیادہ ہے اور 55 فیصد قیدی جیلوں میں قید ابھی بھی اپنے کیسوں کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔ اس کے باعث ہمارا شمار ایران، عراق، سعودی عرب اور چین جیسے ممالک کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان ممالک کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالیوں کی فہررست میں اولین نمبروں پر آنا ہماری بدقسمتی قرار دی جا سکتی ہے۔ اس کے بجائے ہمیں فن لینڈ جیسے ممالک کے ساتھ اس فہرست میں نظر آنا چاہیے۔ جیلوں میں قیدیوں کی بہت بڑی تعداد سکیورٹی کے خطرات کا مؤجب بھی بنتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی رائے میں جیلیں عسکریت پسند تنظیموں کے تھنک ٹینک کا کام سر انجام دیتی ہیں۔
تشدد کی روک تھام کیلئے عدالتیں ملزم کے پولیس کے سامنے دیے گئے بیان کو تسلیم نہیں کرتیں۔ پھر بھی پولیس کو دوران تفتیش برآمد کیے گئے ثبوت پیش کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ان ثبوتوں میں گڑبڑ کرنا پولیس کیلئے ایک عام سی بات ہے۔ الزام کا دفاع کرنے والے شخص کے کیس کا نتیجہ ایک اچھا وکیل اپنے لئے مقرر کرنے سے مشروط ہوتا ہے۔ اور اس کے باعث ملزم کو بیحد مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ عدالت کی جانب سے انہیں مہیا کردہ وکیل ان کے دفاع میں کسی خاص گرم جوشی یا محنت کا مظاہرہ نہیں کرتا اور اکثر و بیشتر ملزم کے غریب خاندان سے پیسے بٹورنے کے چکر میں مصروف رہتا ہے۔
مزید برآں الزام کا دفاع کرنے والے شخص کی اپنے دفاع کے مقدمے کو ٹھیک طرح سے پیش کرنے میں بھی دوران قید ذہنی اور جسمانی تشدد کے باعث فرق پڑتا ہے۔ کریمنل ٹرائل (عدالتی کیس) کے فیصلے کا دارومدار گواہوں کی گواہی پر منحصر ہوتا ہے اور اگر وہ گواہی تبدیل کرنا چاہیں تو انہیں قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وضع کردہ طریقہ کار کے تحت ملزم یعنی اپنا دفاع کرنے والے فرد کے گواہان کو پولیس کے سامنے اپنے بیانات ریکارڈ کروانے ہوتے ہیں جس کے باعث وکلا کو گواہ ڈھونڈنے اور انہیں گواہی دینے پر آمادہ کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
منظور اور پانچ عدد اور افراد بمقابلہ ریاست کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ "ایک گنہگار کو انتہائی سزا سنا کر اور اسے قید کر کے اس کو غلطی سے عبوری ضمانت دینے کے عمل کی تصیح کی جا سکتی ہے لیکن اس ضمن میں ایک بے گناہ شخص کو پابند سلاسل کرنے کے فعل کو درست کر کے اس کی بے جا قید کا مداوا نہیں کیا جا سکتا چاہے اس کو مقدمے سے بری ہی کیوں نہ کر دیا جائے"۔ یہ ریمارکس اس سوال کو جنم دیتے ہیں کہ ہمارا ملک جہاں کریمنل جسٹس سسٹم پہلے ہی خرابیوں کا شکار ہے کیا وہاں انتہائی سزا سنانے یعنی سزائے موت دینے کی اجازت ہونی چاہیے؟ "جب تک الزام ثابت نہ ہو ملزم بے گناہ ہوتا ہے"، یہ صدیوں پرانا اصول شاید پوری دنیا میں کریمنل جسٹس پڑھنے والوں کو پہلے سبق کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہمیں کریمنل جسٹس سسٹم میں کردار ادا کرنے والے اداروں کے احتساب کیلئے ایک طریقہ کار وضع کرنے، فرسودہ تفتیشی طریقہ کار کو تبدیل کرنے اور ثبوتوں کے معیار کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس عمل کے آغاز کیلئے ریفارمز کمیٹیاں بنانا چاہئیں اور عدلیہ سے اس ضمن میں مشاورت کرنی چاہیے۔ پراسیکیوشن کے نظام کو مزید فنڈز مہیا کرتے ہوئے انہیں جدید آلات مہیا کرنے چاہئیں تاکہ وہ انصاف مہیا کرنے کے جدید طریقہ کار اپنا کر درست اور بروقت انصاف مہیا کرنے میں معاون ثابت ہو سکیں۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں ان ہزارہا بے قصور اور غلط الزامات میں قید افراد کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے جنہیں فوری انصاف فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔