اپنے یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ ویڈیو میں کامران شاہد نے کہا کہ ان دنوں گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے حوالے سے میڈیا پر زیر گردش خبر سے تنازع کھڑا ہو چکا ہے کیونکہ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے سامنے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک جج کو مبینہ طور پر ٹیلی فون کرکے احکامات دیئے کہ آپ نے نواز شریف اور مریم نواز کر ضمانت نہیں دینی اور الیکشن تک انھیں جیل میں ہی رکھنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج بات کی جا رہی ہے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی حاضر سروس جج یا چیف جسٹس کسی کو کال کرکے احکامات جاری کرے لیکن میں آپ کو اپنی یادوں میں سے کچھ واقعہ سنانے جا رہا ہوں جس کا میں خود گواہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مولوی مشتاق صاحب کیساتھ ہمارے خاندانی مراسم تھے۔ ہمارا اکثر اوقات ان کے گھر آنا جانا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ جب وہ اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے تو میں ان کے گھر گیا، انہوں نے میرے سامنے کسی حاضر سروس جج کو احکامات دینا شروع کئے کہ آپ یہ فیصلہ فلاں آدمی کے حق میں اس طرح لکھیں گے۔ مجھے ان کی باڈی لینگوئج سے لگ رہا تھا کہ دوسری جانب فون پر موجود جج کے ہاتھ پائوں کانپ رہے تھے کیونکہ ان کا بہت رعب ودبدبہ تھا۔ ان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وکلا ان کے چیمبر کے آگے سے بھی ایڑھیوں کے بل گزرا کرتے تھے۔ وہ بڑے مشہور جج تھے، سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پھانسی انہوں نے ہی دی تھی۔
کامران شاہد نے نے اپنی زندگی کا دوسرا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک بہت بڑے جج تھے جو بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی بنے۔ ان کا بھی بھٹو ٹرائل سے گہرا تعلق تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ ایک ڈاکٹر صاحب کے حق میں فیصلہ دیا۔ میرے والد، میں اور میرے پھوپھا اس کے چشم دید گواہ ہیں۔ میرے پھوپھا اور والد نے جب اس جج صاحب سے کہا کہ آپ نے یہ بڑا ہی غلط فیصلہ دیا ہے، اس سے انصاف کی پامالی ہوئی ہے۔ اس کیس کے تو بہت ثبوت تھے، آپ نے کس طرح یہ فیصلہ اس ڈاکٹر کے حق میں دیدیا؟ یہ سنتے ہی جج صاحب نے کہا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب کے حق میں یہ فیصلہ اس لئے دیا کیونکہ میری بیٹیاں آپریشن کے ذریعے ہوئی تھیں اور انھیں ڈاکٹر صاحب نے میری اہلیہ کا علاج کیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ڈاکٹر صاحب بھلے مانس آدمی ہیں تو چلیں ان کے حق میں فیصلہ دے دیتے ہیں۔ کامران شاہد نے انکشاف کیا کہ یہ جج صاحب پاکستانی عدلیہ کی تاریخ کے ممتاز قانون دان جسٹس نسیم حسین شاہ تھے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے میرے والد سے کہا کہ اگر آپ پہلے میرے پاس آ جاتے تو میں ایک بیلنس فیصلہ دے دیتا۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ ایک مرتبہ مجھے جسٹس ڈوگر کی کال بھی آئی، وہ اس وقت مشرف صاحب کے دور میں چیف جسٹس تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ مجھے سپورٹ کریں کیونکہ میڈیا میں میرے خلاف مہم چل رہی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ میں آپ کو کس طرح سے سپورٹ کر سکتا ہوں تو انہوں نے انکشاف کیا کہ میری جمہوریت کیلئے بہت سی خدمات ہیں۔ میں نے اس ملک میں جمہوریت کو بچایا ہے۔ میں نے حیران ہو کر ان سے پوچھا کیسے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کے وزیراعظم بنتے ہی مجھے پرویز مشرف نے بلا کر کہا تھا کہ میں اسمبلی توڑنے جا رہا ہوں لیکن میں نے ان کیساتھ کھڑا نہیں ہوا۔
کامران شاہد نے اپنی زندگی کا انتہائی دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں راولپنڈی میں کسی کام سے آیا ہوا تھا کہ اس دوران مجھے متعدد مرتبہ لاہور کے لینڈ لائن اور موبائل نمبر سے کال آئیں۔ تاہم سونے کی وجہ سے میں وہ کال اٹینڈ نہیں کر سکا۔ میں نے نیند سے جاگ کر اس نمبر پر کال کی تو وہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کا نمبر تھا، انہوں نے کہا کہ آپ فون کیوں نہیں اٹھا رہے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب آپ کو کالز پر کالز کر رہے ہیں۔ میں بڑا گھبرایا کہ چیف جسٹس مجھے کیوں کالز کر رہے ہیں؟ خیر ڈرتے ڈرتے میں نے چیف جسٹس کو کال کی تو انہوں نے پنجابی میں بات شروع کی اور میری والدہ کا نام لے کر کہا کہ ''توں اوڈا منڈا ایں؟ میں نے کہا ہاں جی تو انہوں نے کہا کہ تم مجھے ماموں کہا کرو، کیونکہ تمہاری والدہ اور میں ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ اس نے مجھے اپنا بھائی بنایا ہوا تھا اور یہ کہ میں ان کی بالکل اپنی بہنوں ہی کی طرح عزت کرتا ہوں۔ اور تمہارے والد بھی میرے بڑے جگری یار رہے ہیں، ہم نے سکول لائف بڑی انجوائے کی۔ تم اپنے والدین کو میری طرف لائو۔
کامران شاہد نے بتایا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی دعوت پر میں اپنے والدین کو فیملی کو لے کر ان کے گھر گیا تو انہوں ہماری بہت خاطر مدارت کی اور اپنے بچپن کی بہت سی یادیں تازہ کیں۔ انہوں نے کہا کہ جس پیار اور محبت سے جسٹس ثاقب نثار صاحب مجھے اور میری فیملی کو ملے، میں نے تو انھیں بڑا عاجز پایا۔