چیف جسٹس سپریم کورٹ عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہرمن اللّٰہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے عمران خان، فواد چوہدری اور اسد عمر کو نوٹس جاری کردیئے۔
دوران سماعت عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے مختلف ہائیکورٹس میں زیر التوا کیسزکسی ایک ہائیکورٹ میں منتقل کرنے کی درخواست کی ہے، الیکشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ بلدیاتی اور عام انتخابات کی تیاری کریں یا کیسز لڑیں۔
عدالت کا کہنا تھاکہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم سے کیسزیکجا کرنے کی عدالتی نظائربھی پیش کیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 186 اے پر انحصار کر رہا ہے۔ کیا سپریم کورٹ کے مختلف ہائیکورٹس کے کیسز یکجا کرنے کے فیصلے کی ماضی میں کوئی مثال موجود ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے 1999 میں مختلف ہائیکورٹس میں زیر التوا انکم ٹیکس کیسز یکجا کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹس میں توہین الیکشن کمیشن کیسز میں درخواست گزار کون ہیں جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ ہائیکورٹس میں الیکشن کمیشن کے خلاف عمران خان، فواد چوہدری اور اسد عمر نے کیسز کر رکھے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مختلف ہائیکورٹس میں زیر التوا کیسز یکجا کرنے سب میں قانونی نکتا ایک ہونا ضروری ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دئیے کہ پیمرا کیسز میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ ہائیکورٹس کے کیسز چلتے رہیں یکجا نہیں ہوں گے۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ مختلف ہائی کورٹس میں ایک ہی نوعیت کے کیسز کے متضاد فیصلے جاری ہوں گے۔ توہین الیکشن کمیشن کیس میں ہائیکورٹس کے حکم امتناع بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کیے گئے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ متضاد فیصلے آنے کی صورت میں سپریم کورٹ میں فیصلہ ہو جائے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ہی حج معاونین کیس میں تمام ہائیکورٹس کے کیسز یکجا کیے تھے۔
عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ہائیکورٹس کے حکم امتناع کے خلاف درخواستوں کو بھی اسی کیس کے ساتھ مقرر کیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے الیکشن کمیشن کی حکم امتناع کے خلاف اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا اور عمران خان، فواد چوہدری اور اسد عمر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 15 دن تک ملتوی کردی۔